1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحصیل منگاہ: تینتالیس میں سے انتالیس کو کورونا وائرس

فریداللہ خان، پشاور
26 مارچ 2020

خیبر پختون‍خوا میں کورونا وائرس سے تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ متاثرہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے۔ دوسرے نمبر پر ضلع مردان ہے، جہاں ایک سو پینسٹھ افراد میں کورونا وائرس کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3a4G6
Pakistan Coronavirus Covid
تصویر: Reuters/F. Aziz

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر نے جمعرات کے روز می‍ڈیا کو اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا، ''اب تک صوبہ بھر میں مشتبہ افراد کی تعداد 294 ہے اور ان میں ایک سو اکیس افراد میں کورونا کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ضلع مرادن کی تحصیل منگاہ میں لیے گئے 43 نمونوں میں انتالیس کے نمونے پازیٹیو آئے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قرنطینہ سینٹر سے بھی دو کیسز پازیٹیو آئے ہیں جبکہ ضلع صوابی اور سوات میں ایک ایک کیس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ اب تک 159 افرادکے رپورٹس نیگیٹیو آئی ہیں جبکہ 317 کیس افراد کے ٹسٹ کے نتائج ابھی آنے ہیں اب تک دو افراد کرونا سے صحت یاب ہوکر گھر وں کو بھیج دیے گئے ہیں۔‘‘

صوبے میں ایک سو چھیتر قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے اور ان مراکز میں تقریبا ساڑھے چار ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے اب تک چار سو بائیس افراد کو قرنٹائن کیا گیا ہے جبکہ ان افراد کی دیکھ بھال کے لیے پانچ سو سے زیادہ عملے کو بھی قرنٹائن کیا گیا ہے۔

ادھر خیبر پختونخوا کے اپوزیشن جماعتوں کے سیا ی رہمناؤں نے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیےنشینل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کا کہنا ہے، ''کورونا وائرس سے نمٹنے  کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت حکومت وقت ضائع کررہی ہے جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین کو اکھٹا کرکے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے ۔

Pakistan | Vorbereitung auf Corona
تصویر: DW/A. Sattar

ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے کر رہے ہیں جبکہ مختلف مراکز اور ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی کے دورے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیرہ سو ڈاکٹر بھرتی کیے گئے ہیں جبکہ مزید آٹھ سو بھرتی کرنے کی تیاری ہے‘‘۔

صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کے چھٹے روز بھی پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی سڑکیں سنسان رہی جبکہ لوگ گھروں تک محدود رہے۔ تاہم اس دوران یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے بعض مراکز میں اشیاء ضرورت کا بھی فقدان ہے ۔

پاکستان میں کورونا بحران کے دوران عزم و ہمت کی کہانیاں

سہولیات کی فراہمی حوالے سے جب صوبائی وزیر محنت شوکت علی یوسفزئی سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ''چھوٹے مراکز صحت سمیت تمام ہسپتالوں کو سہولیات فراہم کی ہیں۔ وینٹی لٹرز کی کمی تھی اسے پورا کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کو آٹھ ارب روپے جاری کیے ہیں۔ صوبے میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مشکل وقت ہے لیکن عوام کا ساتھ دینے سے اس مشکل پر قابو پا لیں گے،''جو بھی وسائل ہیں وہ عوام کے لیے دستیاب ہوں گے ‘‘

پشاور کی انتظامیہ نے سماجی، مذہبی اور دیگر تقریبات کے انعقاد پر پابندی میں دو ہفتے کی توسیع کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ حفاظتی اقدامات کے طور پر محکمہ بلدیات نے ماحولیات کے ماہرین کے ساتھ مل کر چار اضلاع میں کلورینشن کا عمل شروع کیا ہے جبکہ حکومتی اداروں کی جانب سے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ صوبے میں جہاں کاروباری مراکز بند ہیں وہاں زیادہ تر سرکاری اداروں میں اضافی عملے باالخصوص پچاس سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کو گھر پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔