بہتر زندگی کی کوشش میں خود زندگی ہی ہار گئی
27 اگست 2015آسٹرین دارالحکومت ویانا سے جمعرات ستائیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یورپ میں پناہ کے متلاشی یہ درجنوں مہاجرین اور تارکین وطن بظاہر اس مال بردار ٹرالر میں دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
پولیس کے ایک ترجمان ہنس پیٹر دوسکوسیل نے آج ویانا میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پولیس کو بُرگن لینڈ نامی پہاڑی علاقے میں آٹوباہن کہلانے والی قومی شاہراہ کی ایک پارکنگ میں ایک ایسا ٹرالر کھڑا ملا، جس کا بظاہر کوئی مالک نہیں تھا۔
حکام کا اندازہ ہے کہ اس ٹرالر کا ڈرائیور اور انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے اس کے ساتھی ممکنہ طور پر اس مال بردار گاڑی میں سوار غیر قانونی مسافروں کی موت کا یقین کر لینے کے بعد اس ٹرالر کو شاہراہ کے پارکنگ ایریا میں کھڑا کر کے فرار ہو گئے تھے۔
اس ٹرالر کی پارکنگ میں موجودگی کا پتہ چلنے کے بعد حکام نے اس مال بردار گاڑی کا دروازہ کھلوایا تو وہ حیران رہ گئے۔ یہ ٹرالر انسانی لاشوں سے بظاہر جیسے بھرا ہوا تھا۔ پولیس کے بقول اس ٹرالر پر ہنگری کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہے۔
یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ ٹرالر، جسے چند خبر رساں اداروں نے ایک ٹرک بھی لکھا ہے، وہاں کب سے کھڑا تھا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس مال بردار گاڑی میں سوار افراد کی موت کو کافی دیر ہو چکی تھی، کیونکہ ان میں سے اکثر کی لاشوں نے گلنا سڑنا شروع کر دیا تھا۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق فوری طور پر یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اس ٹرک میں کل کتنے افراد سوار تھے، کیونکہ حکام نے کم از کم بیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ باقی ماندہ نیم گلی سڑی اور متعفن لاشوں کے بارے میں تفتیشی حکام یہ جاننے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ وہ کتنے افراد کی ہیں۔ پولیس کے اندازوں کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم از کم بھی پچاس تک ہو سکتی ہے۔
اسی دوران آسٹریا کی خاتون وزیر داخلہ یوہانہ مکل لائٹنر نے اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذمے دار انسانوں کے اسمگلروں کو قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج کا دن ایک تاریک دن ہے اور اس سانحے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق المیہ یہ ہے کہ ان درجنوں مہاجرین کی لاشیں آسٹرین پولیس کو ایک ایسے دن ملی ہیں جب یورپ میں بہت بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے بحران اور اس سے جڑے مسائل پر مشاورت کے لیے ویانا ہی میں کئی یورپی ملکوں کی ایک سربراہی کانفرنس بھی ہو رہی ہے۔