1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بجلی کی شدید قلت آخر کیوں؟

29 دسمبر 2021

کشمیر میں سردیوں کے موسم میں صفر سے بھی کم درجہ حرارت اور پھر بجلی کا غائب ہو جانا وہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امتزاج ہے۔ کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں تو پھر وہاں اتنی کم بجلی آخر کیوں؟

https://p.dw.com/p/44x7u
بھارتی وزیراعظم نریندر مودیتصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

کشمیر میں سردیوں کے موسم میں صفر سے بھی کم درجہ حرارت اور پھر بجلی کا غائب ہو جانا وہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امتزاج ہے۔ کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں تو پھر وہاں اتنی کم بجلی آخر کیوں؟

سیاسی تنازعے کے بعد بجلی بھارتی زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کے لیے دوسرا سب سے بڑا موضوع ہے، جو یہ شکایت بھی کرتے آئے ہیں کہ نئی دہلی ان کے ہائیڈرو پاور کے ذرائع پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔

کشمیر کے خطے میں 20,000 میگاواٹس پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جو اس خطے کی معاشی ترقی کا زینہ ثابت ہو سکتی ہے، مگر یہاں محض 3,263 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس صدی کے آغاز میں عسکریت پسندی میں بتدریج کمی کے بعد بجلی کی ضروریات یہاں کی ان جماعتوں کے لیے اہم ترین موضوع رہا جو یہاں کامیابی کے لیے کوشاں تھیں۔

کشمیر: لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف فرق نمایاں

علاقائی سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ سات پاور پراجیکٹس واپس کشمیری انتظامیہ کے حوالے کیے جائیں جو اس وقت بھارت کی نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن کے پاس ہیں۔ یہ بھارتی حکومت کی ایک کمپنی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیر میں پیدا ہونے والی 3,263 میگاواٹ میں سے NHPC 2,009 میگا واٹ بجلی پیدا کرتی ہے مگر اس کا محض 13 فیصد کشمیر میں فراہم کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشمیری عوام کو اس کے مقابلے میں بجلی کی کہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جتنی بھارت کے شمالی گرڈ سے منسلک دیگر صارفین کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

’ہمیں دن میں چھ گھنٹے بھی بجلی نہیں ملتی‘

''اس انتہائی سخت سردی اور صفر سے نیچے کے درجہ حرارت میں ہمیں پورے دن میں چھ گھنٹے بھی بجلی نہیں ملتی۔ ہم نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بھی پانی گرم کرنے کے لیے لکڑیاں جلا کر گزارہ کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہنا ہے کشمیر کے شمالی بارہ مولا ضلع کے واگورا کی رہائشی نسیمہ رسول کا۔

نسیمہ کہتی ہیں کہ ان حالات میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد اور اسکول جانے والے بچے، خاص طور پر وہ جن کے امتحانات چل رہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ''ہمارے بچے شام میں دیر تک یا صبح جلدی پڑھ نہیں سکتے کیونکہ بجلی ہی دستیاب نہیں ہوتی۔‘‘

پاور کی جنگ

کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی عدم موجودگی میں اور پانچ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خود مختارانہ آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے نئی دہلی حکومت پانچ ایسے معاہدوں پر دستخط کر چکی ہے جس میں کشمیر کے علاقے کے پانچ مزید پراجیکٹ NHPC کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس پیشرفت نے مقامی افراد کی بے چینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے نئی دہلی نے اس منصوبے کو مقامی ورکرز کی طرف سے احتجاج کے بعد مؤخر کر دیا جس کے مطابق کشمیر کے پاور ڈیپارٹمنٹ کو پاور گرڈ کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (PGCIL) میں ضم کیا جانا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس علاقے کو شدید ترین سردی کے موسم میں بجلی کی بندشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے

کشمیر میں بجلی کے بحران کی ایک وجہ انڈس واٹر ٹریٹی  (IWT) بھی ہے جو ورلڈ بینک کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ یا انڈس ریور اور اس میں شامل ہونے والے پانچ دریاؤں کے پانی کے استعمال کے حوالے سے معاہدہ ہے۔

انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کے پانی پر مکمل کنٹرول حاصل ہے جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور انڈس کے پانی پر، جو بھارتی زیر انتظام کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ تاہم بھارت ان تین دریاؤں کے پانی کا 20 فیصد زراعت، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی تیاری کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں پر ایسے پاور پراجیکٹس لگانے کی اجازت ہے جن کے لیے پانی روکنا پڑے تاہم پاکستان کو بھی اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ان دریاؤں پر بھارت کے کسی پن بجلی کے منصوبے کے ڈیزائن پر اعتراض کر سکتا ہے۔

ماضی میں پاکستان بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اس طرح کے پن بجلی کے منصوبوں کے ڈیزائن پر مضبوط اعتراضات اٹھا چکا ہے، مثال کے طور پر بگلیہار اور کرشن گنگا پراجیکٹس پر۔ ان منصوبوں پر صرف اسی صورت میں کام آگے بڑھا جب پاکستان کے اعتراضات کو دور کیا گیا۔ اور ظاہر ہے اس سارے عمل میں یہ منصوبے کئی برس کی تاخیر کا شکار ہوئے۔

سمان لطیف، سری نگر (ا ب ا/ب ج)