1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت:جنسی استحصال کا شکار ہزاروں بچے انصاف سے محروم

جاوید اختر، نئی دہلی
9 مارچ 2021

ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز جنسی استحصال کے شکار کم از کم چار بچے انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے درج تقریباً تین ہزار شکایات عدالت تک پہنچ ہی نہیں پاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3qNik
Indien Demo Kindesmissbrauch
تصویر: AP

ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر روز جنسی استحصال کے شکار کم از کم چار بچے انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے درج تقریباً تین ہزار شکایات عدالت تک پہنچ ہی نہیں پاتے ہیں۔

نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی ' کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن‘ (کے ایس سی ایف) نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ پولیس ہر سال بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے درج تین ہزار شکایات کے بارے میں کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہتی ہے اور یہ معاملات عدالت پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔

یہ تحقیقاتی رپورٹ بھارتی حکومت کے جرائم کا اعدادوشمار رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کی طرف سے سن 2017 سے سن 2019 کے درمیان حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔

Indien: Vier Männer wegen Vergewaltigung einer Studentin hingerichtet
تصویر: picture-alliance/AP/O. Anand

پولیس کی دلیل، 'شواہد ناکافی‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے بنائے گئے خصوصی قانون 'پوسکو‘ کے تحت درج بیشتر کیسز پولیس کی طرف سے چارج شیٹ داخل کیے بغیر ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔ پولیس بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے کیسز کو بند کرنے سے قبل بالعموم لکھتی ہے ”کیس تو درست تھا لیکن شواہد ناکافی تھے۔ یا ملزم کا پتہ نہیں چل سکا، یا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔" 

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں جمع کرائی گئی کیس رپورٹوں کے مطابق مذکورہ بنیاد پر سن 2019 میں 43 فیصد کیسز کوئی کارروائی کرنے سے پہلے ہی بند کر دیے گئے۔ یہ تعداد سن 2017 اور سن 2018 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

پولیس کیسز کو بند کر دینے کی دوسری سب سے بڑی وجہ ”غلط رپورٹنگ" بتاتی ہے۔ البتہ اس بنیاد پر کیسز کو بند کرنے کی تعداد میں پچھلے برسوں میں کمی آئی ہے۔ پولیس نے سن2017 میں'غلط رپورٹنگ‘ وجہ بتا کر 40 فیصد کیسز کو عدالت پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیا تھا لیکن سن 2019 میں یہ تعداد گھٹ کر 33 فیصد رہ گئی۔

Indien Protest nach Vergewaltigung und Mord an Ashifa Bano
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan

خصوصی قانون بھی بے اثر

پوسکو قانون سن 2012 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے مجرموں کو سخت سزائیں دینا ہے۔ اس قانون کے تحت جنسی استحصال کے مقدمات کی سماعت ایک سال کے اندر مکمل ہو جانی چاہیے گویا متاثرہ شخص کو ایک برس کے اندر انصاف مل جانا چاہیے۔ تاہم ایسا بہت کم ہوپاتا ہے۔

کے ایس سی ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پوسکو قانون کے تحت درج مقدمات میں بھی فیصلے کی شرح صرف 34 فیصد ہے جس کی وجہ سے عدالتوں پر پوسکو کیسز کے مقدمات کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز میں جلد از جلد انصاف فراہم کرنے کے لیے سن 2018 میں فاسٹ ٹریک عدالت کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

Indien Kochi Protest gegen Vergewaltigung
تصویر: Reuters/Sivaram V

صورت حال مایوس کن

نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی فاؤنڈیشن نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''گوکہ حکومت بچوں کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے خصوصی قانون کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس نے پوسکو کے نام سے ایک قانون بھی بنایا لیکن اسے مناسب طور پر نافذ نہیں کیے جانے سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔‘‘ 

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں اور سماج دونوں ہی جگہوں پر بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو خصوصی اقدامات اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے کیسز کو حل نہ کرنے کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ  متاثرہ بچوں کا تعلق غریب اورپسماندہ طبقات سے ہوتا ہے۔ انہیں لالچ دے کر اور ڈرا دھمکا کر بڑی آسانی سے بیانات بدل دینے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اگر ملزم کا تعلق دولت مند گھرانے سے ہو یا وہ طاقت ور ہو تو یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔

کشمیری لڑکيوں ميں تائی کوانڈو کا بڑھتا شوق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں