ہوٹل اور ریستوراں سروس چارج نہیں لے سکتے، بھارتی اتھارٹی
5 جولائی 2022بھارت کی سینٹرل کنزیومر پروٹیکشن اتھارٹی (سی سی پی اے) نے یہ حکم کھانے کے اصل بل پر اضافی رقم ادا کرنے کے لیے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی جانب سے دباؤ ڈالنے سے متعلق صارفین کی جانب سے مسلسل موصول ہونے والی شکایتوں کے بعد جاری کیا ہے۔
ہوٹل اور ریستوراں بالعموم صارفین سے اصل بل پر 5 تا15 فیصد رقم "سروس چارج" کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ حکومتی ٹیکس جی ایس ٹی یعنی گڈس اینڈ سروسز ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔
سی سی پی اے نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ صارفین کو سروس چارج ادا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی صارف اپنی مرضی سے 'ٹپ' دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہو گا۔
سی سی پی اے نے اس حوالے سے نئے ضوابط جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں پر"کسی بھی دیگر نام سے" یا "ٹپ دینے سے انکار کرنے پر صارفین کو خدمت فراہم کرنے یا داخل ہونے سے روکنے" پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اگر ہوٹل اس نئے ضابطے کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو صارف اس ہوٹل یا ریستوراں کے خلاف صارفین کے قومی ہیلپ لائن کے ذریعہ شکایت درج کرا سکتا ہے۔
سروس چارج ایک متنازعہ معاملہ
بھارت میں پچھلے کئی برسوں سے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں 'ٹپ' دینے یا سروس چارج کے معاملے پر اکثر ناخوشگوار واقعات دیکھنے کو مل رہے تھے۔ صارفین کی یہ مسلسل شکایت تھی کہ ہوٹل والے انہیں پہلے سے یہ کبھی نہیں بتاتے کہ اصل بل پر انہیں اضافی طور پر سروس چارج بھی دینے پڑیں گے۔
سن 2017 میں صارفین کے امور کی وزارت نے بعض گائیڈ لائنز جاری کی تھیں، جن کے مطابق صارفین سے مینو کارڈ پر درج قیمت کے علاوہ صرف سرکاری ٹیکس (جی ایس ٹی) ہی لیا جائے گا۔ وزارت کا کہنا تھا کہ یہ صارف کی مرضی ہے کہ وہ ٹپ دے یا نہ دے۔ لیکن اس کی مرضی کے بغیر اضافی چارج وصول کرنے کو "غیر قانونی" سمجھا جائے گا۔
ہوٹل مالکان کی دلیل
حکومت نے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملازمین کی مناسب تنخواہیں دے اور اس خرچ کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم ریستوراں کے مالکان اس کے باوجود بلوں میں سروس چارج کے طور پر اضافی رقم لیتے رہے۔
حکومت نے گزشتہ ماہ ہوٹلوں کی انجمن نیشنل ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن آف انڈیا(این آر اے آئی) کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں صارفین کی طرف سے مسلسل یہ شکایتیں موصول ہو رہی ہیں ہوٹل انہیں سروس چارج ادا کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں، جو عام طور پر ایک بڑی رقم ہوتی ہے۔ اور سروس چارج حذف کرنے کی درخواست کرنے پر صارفین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
بھارت میں پانچ لاکھ سے زائد ریستورانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم این آر اے آئی کی دلیل تھی کہ یہ ایک "انفرادی پالیسی کا معاملہ" ہے اور اس طرح کے چارج وصول کرنا "غیر قانونی" نہیں ہیں۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ جب مینو کارڈ میں 'سروس چارج ایکسٹرا' لکھا ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ صارف اسے ادا کرنے پر رضامند ہے۔ سروس فیس کو کھانے کی قیمت میں شامل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا استعمال ہوٹل کے اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کیا جاتا ہے۔
این آر اے آئی کے صدر کبیر سوری نے حکومت کے نئے حکم نامے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سروس چارج "نہ تو غیر قانونی ہے اور نہ ہی غلط طریقہ کار، جیسا کہ الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر عوامی بحث کر کے غیر ضروری طور پر کنفیوژن پیدا کیا جا رہا ہے، جس سے ہوٹلوں کو اپنا کاروبار کرنے میں پریشانی ہو گی۔