1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر کی اجازت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
5 جنوری 2021

بھارتی سپریم کورٹ نے پارلیمان کی نئی عمارت اور اس کے ساتھ دیگر حکومتی دفاتر کی تعمیر کے منصوبے کو درست قرار دے دیا ہے۔ پارلیمان کی نئی عمارت آئندہ برس تک مکمل ہونی ہے، جب ملک آزادی کی 75ویں سالگرہ منائےگا۔

https://p.dw.com/p/3nWCh
 Indien Central Vista Parlamentsgebäude Grafik
تصویر: IANS

بھارتی سپریم کورٹ نے منگل پانچ جنوری کو اپنے ایک اہم فیصلے میں مرکزی حکومت کے ’سینٹرل وسٹا پروجیکٹ‘ کو پوری طرح سے درست بتاتے ہوئے ان تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا، جس میں اراضی کے استعمال میں غیر قانونی تبدیلیوں اور ماحولیات سے متعلق اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔

بھارتی حکومت نے ستمبر 2019ء  میں دہلی کے مرکزی علاقے انڈيا گیٹ اور راشٹراپتی بھون کے درمیان دستیاب زمین پر پارلیمان کی نئی عمارت کے ساتھ ساتھ بہت سے حکومتی دفاتر تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔

نئی پارلیمان مثلث نما یعنی تکونی شکل کی تعمیر کی جائےگی، جس میں 900 سے 1200 کے درمیان ارکان پارلیمان کے بیٹھنے کی جگہ دستیاب ہو گی۔ اس پروجیکٹ کو دہلی کے مرکز میں واقع انڈيا گیٹ کے پاس تعمیر کیا جائے، جہاں اس وقت کافی ہرے بھرے پارک ہیں۔ اسے اگست 2022 تک مکمل کیا جانا ہے، جب بھارت اپنا 75واں جشن آزادی منا رہا ہو گا۔  

لیکن کئی درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ اس پروجیکٹ کے لیے مرکزی دہلی کی زمین کو استعمال کرنے کے لیے، جن تبدیلیوں کی بات کی گئی ہے وہ پوری طرح سے غیر قانونی ہے اور ماحولیات کی مناسبت سے بھی یہ پروجیکٹ کافی نقصان دہ ثابت ہو گا۔

تاہم عدالت عظمی کی تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس حوالے سے ماحولیاتی کمیٹی کی سفارشات درست اور مناسب ہیں اور دہلی ڈیویلمپنٹ اتھارٹی نے اراضی کے استعمال میں تبدیلوں کا، جو منصوبہ پیش کیا ہے، وہ بھی صحیح ہے۔

Indien Parlament Gebäude
حکومت کا کہنا ہے کہ انگریزی دور حکومت میں تعمیر کی گئی پارلیمان کی موجودہ عمارت تقریبا ایک سو برس پرانی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/STR

سپریم کورٹ نے کہا، ’’ہم نے 16 مختلف بورڈز کے سربراہان سے بات چیت کی ہے اور اس حوالے سے درخواستوں کی سماعت کے دوران تمام پیرامیٹرز اور پہلوؤں پر باریکی سے غور بھی کیا گیا ہے۔‘‘ عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ ایسے پروجیکٹ کی تعمیر کے سلسلے میں 'دی ہیریٹیج کمیٹی' سے اجازت لینی ضروری ہے، اس لیے اس پروجیکٹ میں ملوث حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ محکمے سے رابطے میں رہیں اور اس کے احکامات پر عمل کریں۔ 

عدالت کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر کام کے دوران اسموگ ٹاورز لگانے کی بھی ہدایت دی گئی ہیں تاکہ آلودگی سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے، ’’ہم نے وزارت ماحولیات سے کہا ہے کہ وہ مستقبل کے ایسے دیگر تعمیری منصوبوں میں بھی اسموگ ٹاور لگائے، خاص طور پر ان شہروں میں جہاں آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

اس سے قبل عدالت نے اس کیس سے متعلق متعدد درخواستوں پر سماعت کے بعد پانچ نومبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عدالت نے گزشتہ ماہ اس منصوبے کی بنیاد رکھنے کی تقریب کی بھی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد 10 دسمبر کو بھومی پوجا کی تقریب ہوئی اور اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا کہ اس پر حتمی فیصلے تک بنیاد رکھنے کی تقریب یا پھر دستاویزی کارروائی کی تو اجازت ہے تاہم تعمیری کام نہیں کیا جا سکتا۔

دو ہزار انیس کے عام انتخابات میں کامیابی کے چند ماہ بعد ہی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے نئی پارلیمان کی عمارت کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ انگریزی دور حکومت میں تعمیر کی گئی پارلیمان کی موجودہ عمارت تقریبا ایک سو برس پرانی ہے، جو جگہ کی قلت، ڈھانچے کی کمزوری اور سکیورٹی وجوہات کے لحاظ سے فی الوقت مناسب نہیں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ فی الوقت بہت سے حکومتی دفاتر کرایے کی مختلف عمارتوں میں کام کرتے ہیں اور نئے تعمیری منصوبوں کی تکیمل سے حکومت تقریبا ایک ہزار کروڑ کرایے کا پیسہ بچا سکتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سن 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ابھی تک پارلیمان کے ایوان زیريں یعنی لوک سبھا میں 545 نشستیں ہیں تاہم یہ تعداد 2026 تک ہی محدود ہے۔ اس کے بعد اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے تو اس مناسبت سے موجودہ پارلیمان کافی چھوٹی پڑےگی۔

یورپی ارکان پارلیمان کی کشمیر آمد، تشہیری مہم تھی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں