1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی جے پی پر فیس بک کو کنٹرول کرنے کا الزام

جاوید اختر، نئی دہلی
17 اگست 2020

اس رپورٹ کے بعد کہ فیس بک بی جے پی رہنماوں کی منافرت انگیز تقریروں کے خلاف 'تجارتی مجبوریوں کے سبب‘  کارروائی نہیں کرتی، بھارت میں حکمراں جماعت اوراپوزیشن کے درمیان الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3h3sH
Icons von Facebook und Twitter
تصویر: Imago Images/Eibner

اس دوران امریکی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی منافرت انگیز تقریروں یا تشدد کو فرو غ دینے والے مواد پر پابندی عائد کرتی ہے اوراس پالیسی کو عالمی سطح پر نافذ کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا تعلق سیاسی حالات یا کسی سیاسی جماعت سے ہے۔

امریکا کے موقر اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام لگایا تھا کہ امریکی میڈیا کمپنی فیس بک بھارت میں حکمراں ہندو قوم پرست جماعت کے رہنماوں کے تئیں کافی فراخ دل ہے۔ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماوں کے 'ہیٹ اسپیچ‘ والی پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں جان بوجھ کر تساہلی سے کام لیتی ہے او ریہ اسی وسیع منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت فیس بک اور وہاٹس ایپ نے بی جے پی اور شدت پسند ہندوں کی حمایت کی۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق فیس بک کی بھارت میں عوامی پالیسی سے متعلق کمیٹی کے چوٹی کے افسران نے حکمراں بی جے پی کے کم از کم چار افراد اور اس کی تنظیموں کے خلاف 'نفرت انگیز پوسٹس کے متعلق مقررہ ضابطوں کو نافذ کرنے کی مخالفت کی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ افراد یا تنظیمیں تشدد بھڑکانے میں ملوث تھے۔‘   رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فیس بک انڈیا کی پبلک پالیسی ڈائریکٹرانکھی داس نے اپنے اسٹاف کو مبینہ طوربتایا تھا کہ بی جے پی کے رہنماوں کے ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کرنے سے ’بھارت میں کمپنی کے کاروبار پر اثرے پڑے گا۔‘

خیال رہے کہ صارفین کی مناسبت سے فیس بک کا دنیا میں بھارت سب سے بڑا بازار ہے۔ جون میں بھارت میں اس کے 35 کروڑ یوزرس ہوجانے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ فیس بک کی ملکیت والے وہاٹس ایپ اور انسٹا گرام کے بھارت میں کروڑوں یوزرس ہیں۔

فیس بک سمیت دیگرسوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر مسلسل ایسے الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ وہ'فیک نیوز‘ اور ’ہیٹ اسپیچ‘ کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔ بی جے پی کے حوالے سے نئے انکشاف کے بعد فیس بک کی معتبریت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے کئی رہنماوں نے فیس بک پر سنگین الزامات لگائے ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے بھی فیس بک پر انتخابی امورمیں جانبداری کا الزام لگایا۔

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہول گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا”بھارت میں فیس بک اور وہاٹس ایپ پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا قبضہ ہے۔ یہ اس کے ذریعے فیک نیوز اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ یہ الیکشن کو متاثر کرنے میں بھی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ آخر کار امریکی میڈیا میں فیس بک کے بارے میں سچائی سامنے آہی گئی۔"

کانگریس نے معاملے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما اجے ماکن نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ 'جے پی سی کو یہ جانچ کرنی چاہیے کہ فیس بک اور وہاٹس ایپ انتخابات میں بی جے پی کی مدد کرنے اور نفرت کا ماحول بنانے کے لیے کس طرح کام کررہے ہیں۔‘

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر جے رام رمیش نے اپنے ٹوئٹ پر لکھا'فیس بک جھوٹ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ سماجی ثقافت اور مناسب بحث کے لیے فیس بک بہت بڑا خطرہ ہے۔‘ 

دوسری طرف ٹیلی کمیونیکیشن کے وفاقی وزیر اور بی جے پی کے سینئر رہنما روی شنکر پرساد نے کانگریس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ہارنے والے کہتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا پوری دنیا پر کنٹرول ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا''وہ شکست خوردہ لوگ جو اپنی ہی پارٹی میں بھی لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے، یہ بیان دیتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس پوری دنیا کو کنٹرول کرتی ہے۔ الیکشن سے قبل ڈیٹا کو ہتھیار بنانے کے لیے آپ کو کیمبریج انالیٹکا اور فیس بک کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور اب ہم سے سوال پوچھنے کی گستاخی؟"

اس دوران رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی ایک ٹوئٹ کرکے سوال کیا کہ آخر الگ الگ ملکوں کے لیے فیس بک کے الگ الگ پیمانے کیوں ہیں؟ یہ کس طرح کا غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے...اب وقت آگیا ہے کہ بی جے پی کے فیس بک کے ساتھ تعلقات کا انکشاف کیا جائے۔

دریں اثنا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق بھارتی پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین اور کانگریسی رہنما ششی تھرور نے کہا کہ ”میں یقینی طور پر ان معاملات کو دیکھوں گا اور فیس بک سے ان کا جواب طلب کروں گا۔"

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید