1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت: پاکستانی رد عمل

Kishwar Mustafa2 اگست 2012

پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے بھارتی حکومت کے حالیہ فیصلے پر پاکستان میں ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/15iW6
تصویر: AP

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر افتخار علی ملک نے اس فیصلے کو دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی کی دشمنیوں سے دونوں ملکوں کے عوام کو کچھ نہیں مل سکا، اب تجارت کو ایک موقع ملنا چاہیے تا کہ وہ دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی کا باعث بن سکے۔

انھوں نے کہا کہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار اپنے خطیر سرمایے کو رسک پر لگا کر پاک بھارت تجارت کی حمایت کر رہے ہیں لیکن وہ اعلٰی افسران اور سفارت کار جن کا کچھ بھی سٹیک پر نہیں ہے وہ اس کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف پاکستانی اور بھارتی سرمایہ کار مشترکہ کاروبای منصوبے شروع کریں گے بلکہ یورپ امریکہ اور دوسرے ملکوں میں سر مایہ کاری کرنے والے پاکستانی اور بھارتی شہری واپس اپنے ملکوں میں آ کر نئے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔"اس طرح دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ ہوگا۔"

ایوان صنعت و تجارت لاہور کی پاک انڈیا ٹریڈ پروموشن کمیٹی کے چیرمین آفتاب احمد وہرہ نے اس فیصلے کو ایک اچھی پیش رفت قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ کئی پاکستانی سرمایہ کار پہلے ہی اپنا سرمایہ ملائیشیا، بنگلا دیش اور سری لنکا منتقل کر چکے ہیں، باقی سرمایہ بھی اگر بھارت چلا گیا تو اس سے پاکستانی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے بقول پاکستانی حالات بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اس لیے بھارتی سرمایہ کار زیادہ تر پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ہی سرمایہ کاری کر سکیں گے۔

گاڑیوں کے پرزے بنانے والے صنعتکاروں کی تنظیم پاپام کے چیئرمین نبیل ہاشمی نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت کا فروغ بہت اچھی بات ہے لیکن بھارت کا پاکستانی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی اجازت دینا محض ایک سیاسی بیان ہے، ان کے بقول آج بھی پاکستانی بزنس مین کو بھارتی ویزے کے حصول کے لیے بتیس فارم پر کرنا پڑتے ہیں۔ اور وہ بھارت کے چند محدود شہروں میں ہی جا سکتا ہے۔اگر پاکستانی سرمایہ کار کو ویزے کی تجدید کا ہی یقین نہیں ہوگا تو وہ بھارت جا کر سرمایہ کاری کیسے کر سکے گا۔

نبیل ہاشمی کے مطابق بھارت اپنی صنعتوں کو تحفظ دینے کے لیے پچھلے بیس سالوں میں تمام ضروری قواعد و ضوابط بنا چکا ہے لیکن پاکستان نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے اس لیے پاکستانی صنعت کو پاک بھارت تجارت اوپن ہونے کے بعد زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔

پاکستانی سرمایہ کار بھارت میں ٹیکسٹائل اور بینکنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر سکتے ہيں
پاکستانی سرمایہ کار بھارت میں ٹیکسٹائل اور بینکنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر سکتے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی اس فیصلے کو پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری، بدامنی اور توانائی کے سنگین بحران کے شکار ملک پاکستان میں بھارتی سرمایہ کاری آسان نہیں ہو گی۔البتہ پاکستانی سرمایہ بھارت جانے سے ملک میں بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔

ایوان صنعت و تجارت لاہور کے سابق صدر عبد ا لباسط نے بتایا کہ کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کیے بغیر پاک بھارت تجارتی تعلقات بہتر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق پاک بھارت تجارت کا موجودہ حجم دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور پاک بھارت تجارت کو فروغ دے کر اس کا حجم دو ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری انیس احمد نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات "میرج آف کنوینیئنس" کی طرح کے ہیں جب تک دونوں فریق ایک دوسرے سے مخلصانہ تعاون کرتے رہیں گے کام چلتا رہے گا، جہاں پر کسی نے گڑبڑ کی یہ رشتہ طلاق پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول بھارتی سرمایہ کار پاکستان کے انجینرنگ، ہوٹل مینجمنٹ، ہیلتھ اور سیمنٹ سیکٹرز میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی سرمایہ کار بھارت میں ٹیکسٹائل اور بینکنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ ان کے بقول ابھی اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ فوری طور پر کسی بڑی کامیابی کا امکان کم ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ