1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کا مہنگا ترین ٹيکہ کے باوجود بچی زندگی کی بازی ہار گئی

جاوید اختر، نئی دہلی
3 اگست 2021

ایک غیر معمولی جینیاتی بیماری اسپائنل میسکولر اٹروفی کا شکار بھارت کی تیرہ ماہ کی ویدیکا کو بچانے کے لیے دنیا کا مہنگا ترین انجکشن بھی لگایا گیا تاہم وہ بچ نہ سکی۔

https://p.dw.com/p/3yT14
Jemen Sanaa Unterernährte Kinder
(علامتی تصویر)تصویر: picture alliance/Photoshot/M. Mohammed

ایک غیر معمولی جینیاتی بیماری اسپائنل میسکولر اٹروفی کا شکار بھارت کی تیرہ ماہ کی ویدیکا کو بچانے کے لیے دنیا کا مہنگا ترین انجکشن بھی لگایا گیا تاہم وہ بچ نہ سکی۔ سولہ کروڑ روپے کے اس ایک انجکشن کے لیے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے رقم جمع کی گئی تھی۔

بھارتی صوبے مہاراشٹر میں کے ضلعے پونے کے رہائشی سوربھ شنڈے نے بتایا کہ ان کی تیرہ ماہ کی بیٹی ویدیکا شنڈے اتوار کی رات اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ ”شام تک وہ ٹھیک تھی۔ پھر اچانک اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی۔ ہم اسے فوراً قریبی ہسپتال لے گئے لیکن جب اس کی حالت مزید بگڑنے لگی تو ہم وہاں سے ایک بڑے ہسپتال پہنچے، جہاں اسے فوراً وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ہم سے جدا ہو گئی۔" 

سوربھ شنڈے نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا جب ویدیکا چار ماہ کی تھی، اس وقت وہ اپنی گردن کو ٹھیک سے کھڑا نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کی گردن بالعموم ایک طرف لڑھک جاتی تھی اور وہ اسے اوپر نہیں اٹھا پاتی تھی۔

سولہ کروڑ روپے کا ایک انجيکشن

ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ ویدیکا کو اسپائنل مسیکولر اٹروفی نامی ایک جینیاتی بیماری تھی اور اس کا علاج فی الوقت Zolgensma نامی ایک ٹيکہ ہے، جو امریکا میں تیار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے مہنگا ٹيکہ ہے۔ بھارتی کرنسی میں اس کی قیمت سولہ کروڑ روپے ہے۔

’قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے والدین سے دوری مہلک ہو سکتی ہے‘

ویدیکا کے والد سوربھ ایک فوٹو کاپی مشین کی دکان چلا کر اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ اس بچی کی بیماری کی خبریں جب سوشل میڈیا پر آئیں، تو دنیا بھر سے لوگوں نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا اور مختلف کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارموں کے ذریعے سولہ کروڑ روپے جمع کر لیے گئے۔

Symbolbild Kind Röntgen
اسپائنل میسکولر اٹروفی ایک نادر قسم کی جینیٹک بیماری ہےتصویر: Gennadiy Poznyakov - Fotolia.com

مختلف حلقوں سے مدد

ویدیکا کے والد نے بتایا،”مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے ہمارے پاس سولہ کروڑ روپے جمع ہو گئے۔ بالی ووڈ اداکار جان ابراہم نے بھی لوگوں سے عطیہ دینے کی اپیل کی، جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا۔ ایک رکن پارلیمان امول کولہے نے اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھایا اور حکومت سے انجيکشن کی امپورٹ ڈیوٹی معاف کرنے کی اپیل کی، جسے حکومت نے منظور کر لیا۔"

سوربھ کہتے ہیں، ”ہمیں اپنی بیٹی کے صحت یاب ہونے کی امیدیں پیدا ہوگئیں۔ ہمیں نہیں معلوم کے کن کن لوگوں نے ہماری مدد کی۔ لیکن پوری دنیا سے لوگوں نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے میری بچی کو بچانے کے لیے سب کچھ کیا، لیکن شاید بھگوان کو کچھ اور ہی منظور تھا۔"

لاکھوں بچے ضروری ویکسین سے محروم، اقوام متحدہ

سوربھ شنڈے بتاتے ہیں،”گزشتہ ماہ ویدیکا کو جب انجيکشن لگایا گیا تو اس کے بعد اس کی صحت بہتر ہونے لگی تھی۔ انجيکشن سے قبل وہ ہر وقت بستر پر پڑی رہتی تھی، اپنی گردن اٹھا نہیں پاتی تھی لیکن بعد میں گردن میں حرکت ہونے لگی اور پچھلے ماہ ہی ہم نے اس کی پہلی سالگرہ بھی منائی۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اگلے تین ماہ اسے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہو گی، اس کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ بہتر ہونے لگے گی۔"

Iran | Coronavirus | Impfungen
اسپائنل مسیکولر اٹروفی کا ایک ٹيکہ کی قیمت بھارتی کرنسی میں سولہ کروڑ روپے ہے۔تصویر: Ahmad Halabisaz/Xinhua/picture alliance

اسپائنل میسکولر اٹروفی کیا ہے؟

ویدیکا کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سندیپ پاٹل کے مطابق یہ ایک نادر قسم کی جینیٹک بیماری ہے، جس کا پیدائش کے چند ماہ بعد پتہ چلتا ہے۔ بالعموم ہر چار سے پانچ ہزار بچوں میں سے اس طرح کا ایک کیس سامنے آتا ہے۔ اس بیماری کے تین ٹائپ ہیں اور ویدیکا اس کے ٹائپ ون کا شکار تھی۔ ہر دس ہزار میں سے ایک بچہ ٹائپ ون کا شکار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر پاٹل کے مطابق یہ بیماری متاثرہ بچے میں حرکت کو کم کر دیتی ہے اور اس کے عضلات کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔اسے سانس لینے میں دقّت محسوس ہوتی ہے جس کے نتیجے میں موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر پاٹل نے بتایا کہ ویدیکا کی موت بھی آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوئی۔

جرمن طبی ماہرين: سوائن فلو کا ٹيکہ بہترين حفاظتی تدبير

اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا کا مہنگا ترین انجکشن امریکا میں گزشتہ دو تین برس پہلے ہی تیار ہوا ہے۔ ڈاکٹر پاٹل کا کہنا تھا، ”فی الحال اس انجکشن کے طویل مدتی اثرات کا مطالعہ نہیں کیا گیا ہے تاہم جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کی بنیاد پر یہ اس بیماری میں موثر ثابت ہوا ہے۔