1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: تبدیلی مذہب کیسز میں یوپی میں سینکڑوں افراد گرفتار

جاوید اختر، نئی دہلی
18 نومبر 2022

اترپردیش میں دو برس قبل 'غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کا قانون' نافذ ہونے کے بعد سے اب تک 291 کیسز میں 507 گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ لیکن عدالت میں اب تک کوئی قصوروار نہیں پایا گیا۔

https://p.dw.com/p/4Jk8W
Neu Delhi Proteste von Christen
تصویر: Reuters/A. Mukherjee

 

اتر پردیش میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ''غیر قانونی تبدیلی مذہب روک کی تھام قانون"  کے نافذ العمل ہونے کے دو برس کے بعد اب تک مبینہ غیر قانونی تبدیلی مذہب کے  291 کیسز درج کرائے گئے اور اس کےتحت 507 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم اب تک کسی بھی کیس میں ملزمین کو سزا نہیں ہوئی ہے۔

ریاستی حکومت کے مطابق تمام کیسز متعلقہ عدالتوں میں زیر التوا ہے حالانکہ 291 کیسز میں سے 150 میں متاثرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا مذہب زبردستی تبدیل کرایا گیا۔

آبادی میں مذہبی عدم توازن سے ملک تقسیم ہو سکتا ہے، آر ایس ایس

اترپردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے27 نومبر 2020 کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کا قانون نافذ کیا تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مسلمانوں اور مسیحی فرقے کے افراد کو ہراساں کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

'مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری بھارتی آئین کی پامالی ہے‘

اس قانون کے تحت جبراً تبدیلی مذہب کرانے کا قصوروار پائے جانے والے شخص کو جرم کی نوعیت کی سنگینی کی بنیاد پر 10 برس تک قید اور 15 سے 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت انفرادی طور پر کسی کا جبراً مذہب تبدیل کرانے پر پانچ برس قید اور کم از کم 15ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے جب کہ اجتماعی تبدیلی مذہب کا قصوروار پائے جانے پر تین سے 10 برس قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔

 یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے27 نومبر 2020 کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کا قانون نافذ کیا تھا
یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے27 نومبر 2020 کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کا قانون نافذ کیا تھاتصویر: PAWAN KUMAR/REUTERS

تبدیلی مذہب ہندووں کے لیے جذباتی معاملہ

بھارت میں تبدیلی مذہب ہندووں کے لیے بابری مسجد، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 جیسا ہی جذباتی معاملہ ہے اور بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے برسوں سے اس کا استعمال کرتی رہی ہے۔ جب کہ شدت پسند ہندو تنظیمیں فرقہ وارانہ اختلافات  پیدا کرنے کے لیے اس کا استحصال کرتی رہتی ہیں۔

معروف ماہرقانون اور نیشنل لایونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب کا معاملہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں تقریباً دو دہائیوں سے شامل ہے۔ اس لیے مختلف ریاستوں میں اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اس نے تبدیلی مذہب کی روک تھام کا سخت قانون نافذ کرنا شروع کردیا۔

فیضان مصطفی بتاتے ہیں کہ جنوری 2021 میں بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش ریاست نے تبدیلی مذہب قانون نافذ کرنے کے 23 دن کے اندر مبینہ جبرا ً مذہب تبدیل کرانے کے 23 کیسز درج کیے۔ حالانکہ ان میں سے ایک بھی کیس منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا۔

تبدیلی مذہب بنام 'گھر واپسی'

ہندو شدت پسند تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسلم اور مسیحی تنظیمیں ہر برس ہزاروں ہندووں اور بالخصوص قبائلیوں کا مذہب تبدیل کراتی ہیں۔ حالانکہ وہ اس کا کوئی ثبوت کبھی فراہم نہیں کرپاتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں صرف ہندو یا قبائلی ہی اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں۔ ہندو تنظیمیں بالخصوص سنگھ پریوار سے وابستہ متعدد تنظیمیں مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرانے میں سرگرم ہیں۔

سن 2014 میں آگرہ میں 57 مسلم کنبوں کے 200 سے زائد افراد نے ہندو دھرم اختیار کیا تھا۔ اسی طرح سن 2021 میں ہریانہ میں  300 مسلمانوں نے مذہب تبدیل کرکے ہندو دھرم اپنا لیا تھا۔

مودی حکومت اسلام یا مسیحیت اپنانے پر ریزرویشن کے خلاف کیوں؟

لیکن بھارت میں تبدیلی مذہب کے حوالے سے تمام قوانین میں انہیں تبدیلی مذہب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ہندو تنظیمیں اسے "گھر واپسی'' کا نام دیتی ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر جبراً تبدیلی مذہب کو روکا نہیں گیا تو ایک "انتہائی مشکل صورت حال" پیدا ہو جائے گی
بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر جبراً تبدیلی مذہب کو روکا نہیں گیا تو ایک "انتہائی مشکل صورت حال" پیدا ہو جائے گیتصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

سپریم کورٹ کی فکرمندی

بھارتی سپریم کورٹ نے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی ایک عرضی پر گزشتہ ہفتے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگر جبراً تبدیلی مذہب کو روکا نہیں گیا تو ایک "انتہائی مشکل صورت حال" پیدا ہو جائے گی۔

عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ وہ جبراً، لالچ دے کر یا ڈرا دھمکا کر مذہب تبدیل کرانے کے واقعات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر اسے نہیں روکا گیا تو اس سے بالآخر"ملک کی سلامتی، مذہب کی آزادی اور شہری کا ضمیر متاثر ہوگا۔"

ملائشیا میں ’یکطرفہ تبدیلی مذہب‘ کے باعث بڑھتی معاشرتی تقسیم

ماہر قانون فیضان مصطفی کا کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ بیان بازی ہے۔ یہ غلط خیال بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ کوئی شخص مالی فائدے کے بغیر مذہب تبدیل کر ہی نہیں سکتا۔

 مصطفی کا کہنا تھا کہ یو ڈی ایچ آر اور آئی سی سی پی آر جیسے بین الاقوامی قوانین کسی بھی شخص کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا حق دیتے ہیں۔ اور بھارت بھی ان قوانین کا دستخط کنندہ ہے۔

بھارت میں مسیحی اقلیت پر حملوں میں اضافہ

مسلمانوں کا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟

فیضان مصطفی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو جبراً تبدیلی مذہب پر پابندی کی مخالف نہیں کرنی چاہئے کیونکہ قرآن خود کہتا ہے،"دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔"

'ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں'، بھارتی دانشور

وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن میں تو اللہ نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے،"اگر وہ تیرا رب چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ پھر کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن ہو جائیں۔"

ماہر قانون فیضان مصطفی کا خیال ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مذہب کی "تبلیغ" کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بڑی حد تک قرآنی احکامات کے عین مطابق ہیں۔