1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائشیا میں ’یکطرفہ تبدیلی مذہب‘ کے باعث بڑھتی معاشرتی تقسیم

31 جولائی 2022

جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم اکثریتی ملک ملائشیا میں والدین میں سے کسی ایک کی طرف سے دوسرے کی اجازت کے بغیر بچوں کا مذہب تبدیل کر کے انہیں مسلمان بنانے کے واقعات پر اس کثیر النسلی معاشرے میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ElCP
Malaysia Covid-19 Pandemie Maßnahmen Impfung
تصویر: Afif Abd Halim/NurPhoto/picture alliance

ملائشیا کی خاتون شہری لوہ سیو ہونگ کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے شوہر نے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کا ٹخنہ توڑ دیا اور بعد میں وہ بچوں کو گھر سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں مسلمان بنا دیا ۔ لوہ کاخاندانی پس منظر ملا جلا ہے ۔ ان کے والد چینی اور ماں بھارتی نژاد باشندوں کی مقامی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔

ایک طویل قانونی جنگ کے بعد بالآخر فروری میں جب ایک عدالت نے لوہ  کے حق میں فیصلہ سنایا تو انہیں ان کی 14 سالہ جڑواں بیٹیوں اور 11 سالہ بیٹے کے ساتھ دوبارہ ملا دیا گیا۔  لیکن اس آزمائش کے دوران انہوں  نے بھاری نقصان اٹھایا۔ اپنے بچوں سے جدائی کا لمبا عرصہ یاد کرتے ہوئے لوہ کا کہنا تھا، ''یہ میرے لیے ایک تشدد تھا ۔ میں سوچتی رہتی تھی کہ کیا میرے بچوں نےکھانا کھایا ہو گا یا ان کی نیند پوری ہوئی ہو گی؟ میں پریشان رہتی تھی کہ میرا سابق شوہر میرے بچوں کے ساتھ تشدد اور مار پیٹ کر تا ہو گا،جیسے وہ میرے ساتھ کیا کرتا تھا۔‘‘

Malaysia Thaipusam Festival bei Kuala Lumpur
ہزاروں کی تعداد میں ہندو یاتری ملائشیا کے دارلحکومت کوالالمپور میں ایک مذہبی تہوار میں شریک ہیں۔تصویر: AP

یہ کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ملائشیا میں 'یکطرفہ تبدیلی مذہب‘ کے تحت بچوں کو اسلام قبول کروانےکا تازہ ترین معاملہ ہے: اس عمل میں والدین میں سے ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر ہی اپنے مشترکہ بچے یا بچوں کا مذہب تبدیل کروا دیتا ہے۔ یہ مسئلہ سخت گیر اسلام پسندوں اور اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے حلقوں کے مابین ایک نیا میدان جنگ بن گیا ہے۔ ملائشیا مختلف مذہبی اور نسلی برادریوں پر مشتمل 32 ملین کی آبادی والا ملک ہے۔ مالے نسل کے مسلمان کل آبادی کے 60 فیصد سے بھی زیادہ ہیں جبکہ ایک چوتھائی آبادی نسلی طور پر چینی ہیں۔ ہندوستانی اور مختلف مقامی سماجی گروہ یہاں کی بڑی اقلیتیں ہیں۔

اگرچہ زیادہ ترنسلی گروہ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے مالے مسلمانوں کے حق میں پالیسیوں نے اس ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ملک میں اسلام کی روایتی اعتدال پسندانہ شکل بنیاد پرستی کے خاتمے کی اپنی فکری بنیاد کھو چکی ہے۔ 2018ء میں ملائشیا کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک تاریخی فیصلے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ  مذہب کی یکطرفہ تبدیلی کا معاملہ ختم ہو گیا تھا۔ اس وفاقی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ  کسی نابالغ بچے کا مذہب تبدیل کرنے کے معاملے میں والد اور والدہ دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ ایک ہندو خاتون اندرا گاندھی کے سابق شوہر کے خلاف دیا گیا تھا، جس نے اسے بتائے بغیر اپنے تین بچوں کا مذہب تبدیل کر دیا تھا۔

لیکن لوہ کو پیش آنے والے حالات جیسے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام بعض اوقات خود اپنی ذات کے 'غیر اسلامی‘ دیکھے جانے کے خوف سے اس نوعیت کے معاملات میں مداخلت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مذہب کی یکطرفہ تبدیلی کے زیادہ تر واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے، یہ  صرف اس صورت میں ہی سامنے آتے ہیں جب والدین میں سے ایک مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔ لوہ نے کہا کہ جب وہ پولیس کے پاس گئیں، تو انہوں نے پہلا سوال یہ پوچھا تھا کہ آپ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گےکیونکہ اب تو انہوں نے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔

Zuckerfest in Asien
مالے نسل کے مسلمان ملائشیا کی کل آبادی کے 60 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔تصویر: Vincent Thian/AP Photo/picture alliance

خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم، آل ویمن ایکشن سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی لیلیان کوک نے کہا، ''جو چیز واضح ہے، وہ یہ ہے کہ جب ایسا معاملہ ہوتا ہے، تو والدین میں سے ایک اپنے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ طاقت اور کنٹرول سے جڑا ہوا ہے۔‘‘

لوہ کی کہانی ختم نہیں ہوئی، ان کے وکلاء نے بچوں کے اسلام قبول کرنے کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لوہ کے سابق شوہرکا یہ اقدام غیر آئینی تھا۔ تاہم کچھ قدامت پسند مسلمانوں کے نقطہء نظر کے مطابق ایک بار مذہب تبدیل کر لینے کے بعد پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملائشیا میں قومی حکومت کا حصہ بننے والے اسلام پسند گروپ پین ملائشین اسلامک پارٹی نے لوہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تبدیلی مذہب کو چیلنج نہ کریں۔

لوہ کے وکیل اے ریمورگن کے مطابق، ''اس طرح (مذہب) کی تبدیلی کے واقعات کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قومی حکومت اس عمل کو عدالتوں پر چھوڑ دینے کے بجائے اس پر پابندی عائد کر دے۔‘‘ تاہم انہیں شبہ ہے کہ حکومت مسلمان شہریوں میں اپنی حمایت کم ہو جانے کے خوف سے ایسا نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا، ''ایسے واقعات میں حتمی متاثرین تو صرف بچے ہوتے ہیں۔‘‘

ش ر / م م (اے ایف پی)