بچیوں کا عالمی دن، دس سالہ پاکستانی بچی ہمت و حوصلہ کی مثال
11 اکتوبر 2018دس سالہ انساء فجر کی نماز پڑھنے کے لیے ہر صبح اٹھتی ہے۔ پھر وہ قرآن کی تلاوت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ وقت اس کے لیے باعث سکون ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے مصروف دن کا آغاز ہو جاتا ہے۔
سن 2012 سے 11 اکتوبر کو بچیوں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد چھوٹی بچیوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی پھیلانا اور ان کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بہت سی بچیوں کی کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’گرلز آر ناٹ برائیڈز‘ کے تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں قریب انیس لاکھ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی گئی۔ بھارت میں 15.5 ملین لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بیاہ دیا گیا۔
کم عمری ی شادیوں کی ایک بڑی وجہ غربت اور پدرانہ معاشرہ قرار دیا جاتا ہے۔ انساء کا تعلق بھی نوبل امن یافتہ ملالہ یوسف زئی کے صوبے خیبر پختونواہ سے ہے۔ ملالہ کی ہی طرح انساء بھی سکول جانا بہت پسند کرتی ہے۔ اکثر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث اسے ٹارچ کی روشنی میں اپنی پڑھائی مکمل کرنی پڑتی ہے۔
انساء کے والد تاجبر خان نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ انساء کھیتی باڑی میں اکثر ان کی مدد کرتی ہے۔ خان ایک بڑے زمیندار کی زمین پر بطور کسان کام کرتے ہیں۔
انساء کے والد اور بڑے بھائی تمباکو کی فصل کاشت کرتے ہیں جبکہ یہ دس سالہ بچی اپنی بڑی بہن اور والدہ کے ساتھ تمباکو کے پتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سلائی کر کے جوڑتی ہیں تاکہ انہیں خشک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ انساء مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہے اور گھر کے کاموں میں اپنی والدہ کا ہاتھ بھی بٹاتی ہے۔
اس سال اقوام متحدہ کی جانب سے بچیوں کو ہنر سکھانے پر زور دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق،’’ ایک ارب سے زائد نوجوان افراد جن میں لگ بھگ 600 ملین نوجوان لڑکیاں ہیں، اگلی دہائی میں ملازمت کرنی کی عمر کو پہنچ جائیں گے۔ ان میں سے ترقی پذیر ملکوں سے تعلق رکھنے والے 90 فیصد نوجوان غیر رجسٹر شدہ اداروں یا شعبوں میں کام کریں گے۔‘‘ اس صورتحال کے پیش نظر ضروری ہے کہ نوجوان بچیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جائے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔