1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ خاتون ایکٹیوسٹ کی کینیڈا میں پراسرار موت

کشور مصطفیٰ /عبدالغنی کاکڑ
22 دسمبر 2020

پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کے لیے سرگرم خاتون اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ’آزاد‘ کی سابقہ چیئر پرسن کریمہ بلوچ کی لاش اتوار کے روز کینیڈا کے شہر ٹورانٹو سے ملی۔

https://p.dw.com/p/3n6Ff
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

گزشتہ اتوار کو پہلے کریمہ کی گمشدگی کی خبر عام ہوئی اور بعدازاں کینیڈا کے وقت کے مطابق دوپہر  تین بجے ان کی لاش ٹورانٹو کے بندرگاہی علاقے اونٹاریو کے قریب پانی سے ملی۔ ٹورانٹو پولیس عوامی تعاون سے کریمہ کی تلاش کی کارروائی عمل میں لائی۔ بعد ازاں ان کے گھر والوں نے کریمہ بلوچ کی لاش ملنے کی خبر کی تصدیق کر دی۔

کریمہ کی سرگرمیاں

انسانی حقوق، خاص طور سے حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والی کریمہ پاکستانی صوبے بلوچستان کے عوام کی صورتحال پر کھل کر تنقید کیا کرتی تھیں۔ سن 2016 میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی 'سو با اثر خواتین‘ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ 2018 ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 39ویں اجلاس میں کریمہ بلوچ نے پاکستان میں صنفی امتیاز اور معاشرے میں پائی جانے والے عدم مساوات کا معاملہ اُٹھایا تھا۔ 
انہوں نے اقوام متحدہ میں ہیومن رائٹس کونسل کے سامنے اپنی تقریر میں پاکستان میں اسلام کے نام پر رائج ان قوانین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جن کا سہارا لے کر معاشرے میں لڑکیوں کو پدر سری اقدار کی پھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ 
کریمہ نے کہا تھا، ’’جب کسی عورت کا غیرت کے نام پر قتل خود اُس کے بھائی کے ہاتھوں ہو جائے تو اسے اسلامی قوانین کا نام دے کر کیس کو فیملی کے سپرد کر دیا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ہی معاملے کو نمٹا لیں۔ زیادہ تر ایسے مجرمانہ واقعات میں قاتل کو معاف کر دیا جاتا ہے اور وہ بچ جاتا ہے۔ ویسے بھی ایک مرد کے مقابلے میں دو خوایتن کی گواہی کی آڑ میں مجرم مرد ہمیشہ سزا سے بچ جاتا ہے۔ اس طرح یہ امکان بہت کم باقی رہ جاتا ہے کہ عصمت دری کے واقعات کا فیصلہ متاثرین کے حق میں ہو‘‘۔
ان بنیادی معاشرتی مسائل کے علاوہ کریمہ بلوچ نے ایک اور نازک مسئلے کی نشاندہی کی تھی، جس کا تعلق معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی سے ہے۔ ان کا کہنا تھا،''انصاف اور قانونی نظام میں ان بنیادی خامیوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مذہبی انتہا پسند گروپوں نے پاکستان، خاص طور سے بلوچستان میں خواتین کی آزادی پر حملہ کیا ہے۔‘‘
یہ پہلا واقعہ نہیں
رواں سال مئی میں ایک بلوچ جرنلسٹ ساجد حسین سویڈن میں مردہ پائے گئے تھے۔ وہ سویڈش شہر اُپسالا سے مارچ کے مہینے میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ جنوب مغربی پاکستانی صوبے، بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کو ایک پرانی تحریک قرار دیا جاتا ہے۔ اس صوبے میں متعدد مسلح گروہ بھی برسر پیکار ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہیں بیرونی ممالک کی معاونت بھی حاصل ہے۔ یہ مسلح گروپ پاکستانی سلامتی کے اہلکاروں کے ساتھ متصادم رہتے ہیں۔ بلوچ خود کو عدم مساوات کا شکار سمجھتے ہیں۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں ہمیشہ سے ملکی ریاستی اداروں پر بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں جبکہ پاکستانی حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ بلوچ سیاسی کارکنوں کی ایک کثیر تعداد ملک چھوڑ کر کئی ممالک میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔ 
کینیڈا سے تحقیقات کا مطالبہ
پاکستان میں قومی سیاست کی حامی بلوچ قوم پرست جماعت بی این مینگل کے مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کہتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کی ہلاکت بلوچ عوام کے لیے ایک قومی سانحہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کریمہ بلوچ کی کینیڈا جیسے محفوظ ملک میں ہلاکت ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے۔ ہمیں امید ہے کہ کینیڈین حکام اس ہلاکت کے حوالے سے اصل محرکات سامنے لائیں گے۔‘‘
کوئٹہ میں بلوچ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے جاری تحریک سے وابستہ مقامی رہنما جاوید بلوچ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں کریمہ بلوچ کی ہلاکت بلوچوں کے خلاف ایک ’نئے کھیل‘ کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بیرون ملک مقیم بلوچ سیاسی کارکن ہماری اس تحریک میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہی کارکنوں کی وجہ سے بلوچوں کی آواز اب بین الاقوامی سطح پر سنی جا رہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ دو روز قبل افغانستان کے صوبہ قندھار میں بھی دو بلوچ سیاسی کارکنوں کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ ان افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں