بلقیس ایدھی بھی انتقال کر گئیں
15 اپریل 2022بلقیس ایدھی کے 74 برس کی عمر میں انتقال کی ان کے بیٹے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی کے قریبی ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ ایدھی ٹرسٹ کے ایک عہدیدار محمد سلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلقیس ایدھی کو رمضان کے اسلامی مہینے کے آغاز سے دو روز قبل علاج کے لیے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کو چند دیگر طبی مسائل کے علاوہ بلڈ پریشر کے مرض کا سامنا بھی تھا اور گزشتہ چند روز سے ان کی حالت کافی تشویش ناک تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے ایک ترجمان کے مطابق بلقیس ایدھی کا دو مرتبہ دل کا بائی پاس آپریشن بھی ہو چکا تھا۔
پیشے کے اعتبار سے نرس
بلقیس ایدھی نے چند برس قبل انتقال کر جانے والے اور انسان دوست فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے ساتھ مل کر کئی عشروں تک یتیموں، لاوارثوں اور ضروت مندوں کی نہ صرف غیر مشروط مدد کی تھی بلکہ مرحوم عبدالستاار ایدھی تو لاوارث انسانی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلا کر ان کی تدفین کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں پاکستان میں نہ صرف ایمبولینسوں کا سب سے بڑا قومی نیٹ ورک قائم کیا تھا بلکہ ان کا ادارہ پاکستان کے تقریباﹰ ہر شہر میں سماجی خدمات میں پیش پیش رہتا تھا اور آج بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔
بلقیس ایدھی کئی دہائیوں تک نہ صرف اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ضروت مندوں کی مد دکرتی رہیں بلکہ انہوں نے خود اپنے نام سے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن بھی قائم کر رکھی تھی۔ مرحومہ پیشے کے اعتبار سے ایک تربیت یافتہ نرس تھیں۔
انہوں نے پہلے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اور ان کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر چھ عشروں سے بھی زائد عرصے تک انسانیت کی ایسے خدمت کی کہ اس دوران لاکھوں ضرورت مندوں میں ان کے مذہب، رنگ، نسل، عمر یا کسی بھی دوسری بنیاد پر کبھی کوئی تفریق نہ کی گئی۔
بلقیس ایدھی کے 'جھولوں‘ کے بیالیس ہزار سے زائد بچے
عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کی دیگر بہت سی انتہائی گراں قدر خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا ایک بے مثال کام 'جھولوں‘ کا قیام تھا۔ ان 'جھولوں‘ سے مراد ایسے پالنے تھے، جن میں لوگ ملک بھر میں ایدھی ہومز کے باہر اپنے وہ بچے چھوڑ جاتے تھے، جن کی پیدائش کی کسی نے خواہش نہیں کی ہوتی تھی۔
ایسے بچے تقریباﹰ ہمیشہ ہی غیر ازدواجی جسمانی تعلقات یا ریپ جیسے جرائم کے نتیجے میں پیدا ہوتے تھے اور بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن نے یہ اہتمام کیا تھا کہ ایسے بچوں کے والدین ان نولومود انسانوں کو قتل نہ کریں بلکہ ان کے ایدھی ہومز کے باہر 'جھولوں‘ میں چھوڑ جائیں۔ مقصد ایسے بچوں کی جانیں بچانا ہوتا تھا اور یہ کام آج بھی جاری ہے۔
بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن آج تک ایسے 42 ہزار سے زائد پاکستانی بچوں کی جانیں بچا چکی ہے۔
'انسانوں میں فرشتے‘
بلقیس ایدھی کے انتقال پر پاکستان بھر میں سیاسی، سماجی اور فلاحی حلقوں سمیت ہر کسی کی طرف سے گہرے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مرحوم عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ بلاشبہ پاکستان کے دو ایسے شہری تھے، جنہیں ان کی بے لوث اور کئی عشروں تک جاری خدمات کے باعث عام لوگ 'انسانوں میں فرشتے‘ قرار دیتے تھے اور ان کا دلی احترام کیا جاتا تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن، ایدھی ٹرسٹ اور بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن، ان سب خیراتی اداروں کا کام آج بھی جاری ہے۔ مگر آج بلقیس ایدھی کی موت کے ساتھ پاکستان میں سماجی فلاحی خدمت کا وہ بے نظیر باب مکمل ہو گیا ہے، جو عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کی زندگیوں سے جڑا ہوا تھا اور جس میں وہ کروڑوں پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ بنے ہوئے تھے اور آئندہ بھی بنے رہیں گے۔