بلقان کی ریاستیں مہاجرت کے مسئلے سے نمٹنے میں شریکِ کار بنیں
9 نومبر 2016آسٹریا، ہنگری، چیک ریپبلک، سکوواکیہ، سلووینیا اور بوسنیا کے وزرائے دفاع نے سراجیوو میں ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں اِس مسئلے کو زیرِ بحث لایا گیا کہ بلقان ممالک کے راستے یورپ میں مہاجرین کی تعداد میں کمی لانے کے منصوبوں میں اِن ممالک کی افواج کو کس طرح شریک کیا جائے۔
اجلاس میں آسٹریا کے وزیرِ دفاع ہنس پیٹر ڈوسکو سِیل کا کہنا تھا کہ مہاجرین صرف یورپی یونین کا مسئلہ نہیں، لہذٰا بوسنیا، سربیا، مقدونیہ اور مونٹینیگرو کی ریاستوں کو بھی بّرِ اعظم یورپ کی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے مستقبل کے منصوبوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔
اِس موقع پر چیک وزیرِ دفاع شٹروپنیکی نے کہا کہ جب بھی خطے میں استحکام کی کوششوں پر بات ہو گی، نیٹو اور یورپی یونین کا ساتھ دینے کے اُن کے ملک کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
اس سے قبل رواں برس اکتوبر کے آخر میں مہاجرين کی آمد کو کنٹرول کرنے اور اس سے منسلک مسائل کے حل کے ليے برسلز ميں طويل مذاکراتی عمل کے بعد يورپی يونين اور بلقان رياستوں کے مابين مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق ہوگیا تھا۔
برسلز ميں اجلاس کے بعد یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ينکر کے ہمراہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا تھا کہ پناہ گزينوں کا موجودہ بحران يورپی تاريخ کے سب سے بڑے امتحانوں ميں سے ايک ہے۔ خیال رہے کہ شام، عراق، افغانستان اور شمالی افريقہ کے شورش زدہ ممالک سے سن دو ہزار پندرہ سے اب تک لاکھوں افراد پناہ کے ليے يورپ پہنچ چکے ہيں۔