1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ واچ: احتجاج کا انداز درست نہيں، پاکستانی بلاگرز اور آن لائن کميونٹی

24 ستمبر 2012

پاکستان ميں گزشتہ دنوں ہونے والے واقعات پر عوام کی ايک بڑی تعداد سوشل ميڈيا پر کھل کر اپنے خيالات کا اظہار کر رہی ہے۔ عوام اسلام مخالف فلم سے بھی ناخوش ہيں اور ملک ميں اس حوالے سے ہونے والے احتجاج کے طريقہ کار سے بھی۔

https://p.dw.com/p/16DTv
تصویر: Fotolia/Claudia Paulussen

امریکا میں بنائی جانے والی ايک متنازعہ فلم، جو کہ اسلام مخالف مواد پر مشتمل ہے، ان دنوں پوری مسلمان دنیا میں غم و غصے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان ميں بھی گزشتہ ہفتے اس احتجاجی لہر نے زور اس وقت پکڑا،جب ملکی حکومت نے جمعے کو پورے ملک میں چھٹی کا اعلان کيا۔

یوم عشق رسول کے طور پر منایا جانے والا دن ديکھتے ہی ديکھتے پرتشدد واقعات، خونریزی اور لوٹ مار سے بھر پور دن ميں تبديل ہو گيا۔ مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملک بھر ميں ہونے والے مظاہروں ميں مجموعی طور پر اکیس لوگ مارے گئے اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ مشتعل لوگوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور دکانوں، سینما گھروں اور فاسٹ فوڈ ریستورانوں کو یا تو لوٹ لیا گیا یا انہيں شدید نقصان پہنچایا گیا۔

جمعے کے روز پيش آنے والے ان واقعات کے بعد ہفتے کو پاکستان ميں ملکی وزير برائے ريلوے غلام احمد بلور نے ویڈیو کے فلمساز کو قتل کرنے والے فرد کے لیے ایک لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔ غلام احمد بلور نے اس بیان میں فلمساز کے ممکنہ قتل کو 'کارِ خیر‘ قرار دیتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور طالبان کو بھی اس میں شامل ہونے کی 'دعوت‘ دی۔ وزير برائے ريلوے کے اس بيان کے رد عمل ميں اسلام آباد انتظاميہ سميت ملک کی ديگر سياسی جماعتوں اور خود عوامی نيشنل پارٹی نے بھی بلور کے اس بيان کی مخالفت کی۔ بعد ازاں امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھی اتوار کو ایک بیان میں پاکستانی وزیر کے اس بیان کی مذمت کی۔

پاکستان ميں ان واقعات اور احتجاج کے پر تشدد طريقہ کار کو سماجی رابطوں کے ويب سائٹس پر لوگوں کی ايک بڑی تعداد نے تنقيد کا نشانہ بنايا۔

سبير لودھی پاکستانی روزنامے ايکسپريس ٹريبيون کے آن لائن ايڈيشن پر شائع ہونے والے اپنے بلاگ ميں لکھتے ہيں کہ پيغمبر اسلام کے ساتھ عقيدت کے اظہار کے ليے اپنے ہی شہروں کو آگ لگانا درست نہيں۔ لودھی نے مزيد لکھا، ’پاکستان ميں توہين مذہب ايک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر ايک کافی کے کپ کے بعد کسی گورنر کو قتل کيا جا سکتا ہے، ايک وزير کو ہلاک کيا جا سکتا ہے اور اس کے الزام پر ايک بارہ سالہ بچی کو زير حراست رکھا جا سکتا ہے۔‘

Verbrennung von USA-Flagge in Pakistan
تصویر: dapd

ايکسپريس ٹريبيون کے آن لائن ايڈيشن پر شائع ہونے والے ايک اور بلاگ ميں بينا شاہ لکھتی ہيں کہ حق رائے کے نام پر امريکا ميں اسلام مخالف مواد بنايا جا رہا ہے۔ بلاگر نے اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے اس موضوع پر پاکستانی ميڈيا کے کردار کو سراہا اور کہا کہ ہر ٹی وی چينل اور نشرياتی ادارے پر اسی موضوع پر پروگرام نشر کرنا اچھا اقدام تھا۔

دوسری جانب وزير برائے ريلوے غلام احمد بلور کی جانب سے ویڈیو کے فلمساز کو قتل کرنے والے کے لیے ایک لاکھ ڈالر انعام کے اعلان پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تزين حسين نامی بلاگر نے ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے بتايا کہ بلور کا يہ بيان پاکستانی عوام کی عکاسی نہيں کرتا۔ تزين حسين کا کہنا ہے، ’ايک وزير کی جانب سے اس قسم کا بيان دينا غير ذمہ دارانہ رويے کا مظاہرہ ہے اور سلسلے ميں حکومت کو اُن سے وضاحت طلب کرنی چاہيے تھی‘۔

سماجی رابطے کی ويب سائٹ فيس بک، مائیکرو بلاگنگ ويب سائٹ ٹوئٹر اور کئی ديگر بلاگ ويب سائٹس پر ان دنوں يہی موضوع چھايا ہوا ہے۔ عوام متنازعہ فلم کی مخالفت کرتے ہيں ليکن ان کے خيال میں سياستدانوں، حکمرانوں اور مظاہرین کی جانب سے غير ذمہ دارانہ رويے کا مظاہرہ درست حکمت عملی نہيں۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: امتياز احمد