1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریوک، تاریخ کے بے رحم ترین قاتلوں میں سے ایک

16 اپریل 2012

آج سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں آندرس بیہرنگ بریوک کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ہے، جس نے گزشتہ سال جولائی میں 77 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14ehQ
تصویر: Reuters

آج جج کے پوچھنے پر بریوک نے 77 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ خود کو قصور وار نہیں سمجھتا۔ لمبے قد اور تیر کی طرح پیوست ہو جانے والی نیلی آنکھوں والا تینتیس سالہ بریوک بظاہر ایک عام سا نوجوان ہے لیکن اُس کے عام سے چہرے کے پیچھے ایک ایسا قاتل چھُپا ہوا ہے، جو تاریخ کے بے رحم ترین قاتلوں میں سے ایک ہے اور جو کثیرالثقافتی رجحانات اور اسلام سے نفرت کرتا ہے۔

گزشتہ سال بائیس جولائی کو اُس نے پہلے دارالحکومت اوسلو کے سرکاری عمارات والے علاقے میں ایک بم دھماکہ کیا اور پھر چھوٹے سے جزیرے یوٹویا پر جا کر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک یوتھ کیمپ کے شرکاء پر فائرنگ شروع کر دی۔ فروری میں بریوک نے ایک سماعت کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ یہ قتل عام اُن ریاستی غداروں کے خلاف حفظ ماتقدم کے طور کی جانے والی کارروائی تھی، جو ایک کثیرالثقافتی معاشرے کے لیے اپنی حمایت کے ذریعے ’نسلی تطہیر‘ کے قصور وار ہیں۔

بریوک نے کسی قسم کے تاثرات ظاہر کیے بغیر اُس ایمرجنسی کال کی ریکارڈنگ سنی، جو اُس کی طرف سے فائرنگ شروع ہونے کے بعد پولیس کو موصول ہوئی تھی
بریوک نے کسی قسم کے تاثرات ظاہر کیے بغیر اُس ایمرجنسی کال کی ریکارڈنگ سنی، جو اُس کی طرف سے فائرنگ شروع ہونے کے بعد پولیس کو موصول ہوئی تھیتصویر: AP

بریوک تیرہ فروری 1979ء کو پُرسکون اور خوشحال ناروے میں پیدا ہوا اور اُس کی پرورش ایک الگ تھلگ ماحول میں ہوئی۔ اُس کے سفارت کاری سے وابستہ والد اور نرسنگ پیشہ ماں کے درمیان اُس وقت طلاق ہو گئی تھی، جب وہ ابھی ایک ہی برس کا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ وہ تنہائی پسند ہوتا چلا گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اُس نے سرٹیفکیٹ کے بغیر ہی اسکول چھوڑ دیا، غالباً وہ سیاست کے شعبے میں قدم رکھنا چاہتا تھا۔ 1999ء میں وہ دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت پراگریس پارٹی میں شامل ہو گیا اور اُس کی نوجوانوں کی مقامی شاخ کے لیے کام کرنے لگا۔ 2006ء میں اُس نے یہ جماعت چھوڑ دی۔ بعد ازاں انٹر نیٹ پر ایک خط میں اُس نے پارٹی چھوڑنے کا جواز یہ لکھا کہ یہ جماعت ’کثیرالثقافتی مطالبات‘ اور ’انسانیت کے خود کشیانہ نظریات‘ کے لیے زیادہ ہی کشادگی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔

آج پیر کی سماعت کے دوران جب بریوک کمرہء عدالت میں داخل ہوا تو اُسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ اُس نے مخصوص انداز میں اپنے سینے کو چھُوا اور پھر اپنے سامنے اپنا دایاں مکا فضا میں لہرایا۔ جیسا کہ اُس نے گزشتہ سال بائیس جولائی کو بم دھماکے اور فائرنگ سے پہلے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے گئے اپنے پندرہ سو صفحات پر مشتمل منشور میں کہا تھا، یہ نائٹس ٹیمپلر نامی تنظیم کا سلام کرنے کا مخصوص انداز ہے، جس کا وہ خود کو رکن بتاتا ہے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کسی تنظیم کا وجود ہی نہیں ہے۔

بریوک کے مطابق اِس طرح سے مکا لہرانا نائٹس ٹیمپلر نامی تنظیم کا سلام کرنے کا مخصوص انداز ہے، جس کا وہ خود کو رکن بتاتا ہے
بریوک کے مطابق اِس طرح سے مکا لہرانا نائٹس ٹیمپلر نامی تنظیم کا سلام کرنے کا مخصوص انداز ہے، جس کا وہ خود کو رکن بتاتا ہےتصویر: Reuters

عدالت میں اُس کی ہتھکڑی اتار دی گئی اور اُسے قتلِ عام کے دن پولیس کو موصول ہونے والی ایمرجنسی کال کی ریکارڈنگ سنائی گئی، جسے اُس نے بغیر کسی قسم کے تاثرات ظاہر کے سنا۔ بعد ازاں اُن تمام افراد کے نام پڑھ کر سنائے گئے، جنہیں اُس نے ہلاک کیا تھا۔ بریوک نے یہ سب کچھ بھی بغیر کسی طرح کے تاثرات کے پتھرائے ہوئے چہرے کے ساتھ سنا۔ تاہم جب اُس کی اپنی بنائی ہوئی اسلام مخالف فلم عدالت میں دکھائی گئی تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اُس کا چہرہ شدت جذبات سے سرخ ہو گیا اور جب بڑی اسکرین پر اسلام پسندوں کی تصاویر دکھائی جا رہی تھیں تو وہ اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔

پروگرام کے مطابق بریوک کے خلاف مقدمے کی کارروائی دس ہفتے تک جاری رہے گی۔ اُسے یا تو اکیس سال کی سزائے قید ہو سکتی ہے، جس میں بعد ازاں غیر معینہ مدت تک کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اُسے بدستور معاشرے کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔ یا پھر اُسے ممکنہ طور پر عمر بھر کے لیے نفسیاتی علاج کے کسی بند مرکز میں رکھا جائے گا۔

اِس مقدمے کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے دنیا بھر سے کوئی آٹھ سو صحافی اوسلو میں موجود ہیں۔

aa/ij (AFP,Reuters)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں