ناروے: بریوک کے خلاف مقدمے کی کارروائی آج سے
16 اپریل 2012بریوک کے خلاف مقدمے کے آغاز کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور عدالت کے اطراف کا علاقہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ بریوک کے حملوں میں بچ جانے والے اور مرنے والوں کے لواحقین مقدمے کی کارروائی خصوصی طور پر تیار کیے گئے ایک کمرے میں بیٹھ کر دیکھ سکیں گے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 77 افراد کا قاتل بریوک عدالتی کارروائی کو اپنے انتہا پسند خیالات کی تشہیر کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ بریوک کے بقول حملے ناروے کو مسلمانوں کے غلبے سے بچانے کے لیے ضروری تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بائیس جولائی کو بریوک نے اوسلو میں سرکاری عمارتوں کے باہر ایک کار بم دھماکا کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ اوسلو کے شمال مغرب میں تقریباً چالیس کلومیٹر پر واقع اوٹویا جزیرے پر چلا گیا تھا۔ اس وقت وہ پولیس اہلکار کا رُوپ دھارے ہوئے تھا۔ بریوک نے وہاں تقریباﹰ ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور اس دوران سمر کیمپ میں شریک افراد میں سے انہتر کو قتل کیا، جن میں سے بیشتر جواں سال تھے۔ اس کے بعد بریوک نے گرفتاری پیش کر دی تھی۔ بریوک کی ان کارروائیوں کو دوسری عالمی جنگ کے بعد ناروے میں ہونے والے بدترین حملے قرار دیا گیا تھا۔
آج پیر کے روز ہو رہے مقدمے کا اصل موضوع یہ ہے کہ آیا بریوک ذہنی طور پر ایک نارمل شخص ہے اور اپنے اقدامات کا ذمہ دار ہے یا نہیں۔ دس ہفتوں پر محیط اس ٹرائل کے بعد یہ طے ہوگا کہ بریوک کو جیل بھیجا جائے یا پھر نفسیاتی وارڈ میں۔
خیال رہے کہ بریوک کے پہلے معائنے کے بعد اس کو ذہنی طور پر معذور قرار دیا گیا تھا، تاہم حال ہی میں ایک نئی رپورٹ کے مطابق بریوک کو ایک نارمل شخص بتایا گیا ہے۔
تینتیس سالہ بریوک پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے اکیس سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس قید کی میعاد میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے اگر بریوک کو سماج کے لیے ایک خطرہ سمجھا گیا۔
یہ بھی واضح رہے کہ بریوک چاہتا ہے کہ اس کو ذہنی طور پر نارمل سمجھا جائے تاکہ اس کے ’نظریات‘ کو لوگ سنجیدگی سے لیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ نفسیاتی وارڈ میں سزا کاٹنے سے موت زیادہ بہتر ہے۔
ss/ai (AFP)