1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پرامن انتخابات کے ذریعے تبدیلی اقتدار ممکن بنائی جائے‘

بینش جاوید
26 جون 2018

شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے بروقت انتخابات کے ذریعے، پرامن طریقے سے، نو منتخب حکومت کو تبدیلی اقتدار ممکن بنائیں۔

https://p.dw.com/p/30It3
Pakistanische Senatorin Sherry Rehman
تصویر: Sherry Rehmans Office

شیری رحمان  پاکستان پیپلز پارٹی کی صف اول کی رہنما ہیں۔ انہیں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حزب اختلاف کی پہلی خاتون سربراہ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔  اس سے قبل وہ امریکا میں پاکستان کی سفیر اور  وزیر اطلاعات و نشریات کے عہدے پر بھی فائز رہی ہیں۔ جمہوری قوتوں کی مضبوطی،اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی روادری کے لیے جدوجہد ان کا نصب العین ہے۔

سوال:  کیا بروقت انتخابات کا انعقاد پاکستان کی جمہوری قوتوں کی فتح ہے­؟

شیری رحمان :عام انتخابات آئینی تقاضوں کے تحت وقت پر ہونا چاہیے۔ پاکستان کو پہلے ہی بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔ ہم کسی نئے بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے بروقت انتخابات کے ذریعے، پرامن طریقے سے، نو منتخب حکومت کو تبدیلی اقتدار ممکن بنائیں۔

سوال: کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ، اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت میں، نواز شریف کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟

شیری رحمان:  ہم نواز شریف کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ پر تشدد مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے پی ایم ایل ن ابہام کا شکار ہے۔ وہ جمہوری اقدار اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ ہم نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کا پاس رکھا لیکن یہ اس معاہدے سے مستفید ہونے کے بعد اس سے لاتعلق ہو گئے۔ نوازشریف نے خود کو جمہوریت پسند ثابت نہیں کیا۔ وہ کبھی پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔ نواز شریف صرف اس وقت جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی بات کرتے ہیں جب یہ ان کے حق میں ہو۔

 سوال: کیا پاکستانی میڈیا دباؤ کا شکار ہے؟  کیا آپ قومی اور بین الاقوامی مبصرین سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ قبل از انتخابات دھاندلی ہو رہی ہے؟

شیری رحمان : صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں طاقت کے مراکز میں ڈرامائی تبدیلی کے ساتھ سچ بولنے کی جراٗت کرنے والوں کےخلاف دباؤ بڑھ رہا ہے۔سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں میڈیا اپنی شکایت درج کرا سکتا ہے۔  ہم میڈیا پر دباؤ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بات کرتے رہیں گے۔

ہمارا مشن مشاہدے پر مشتمل ہو گا، میشائیل گالر

سوال: کیا بلاول بھٹو پاکستان خصوصی طور پر پنجاب میں نوجوان ووٹروں کو پیپلز پارٹی کے حق میں قائل کر سکیں گے؟

 شیری رحمان: بلاول نوجوان ہیں، نڈر ہیں اور پسماندہ طبقے کو با اختیار  بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔ وہ نوجوانوں کو معیشت اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی بنانا چاہتے ہیں۔ بلاول نے نہ صرف پنجاب  کے نوجوانوں کو  اپنی طرف راغب کیا ہے بلکہ بہت سے نوجوان پاکستانیوں میں سیاست میں حصہ لینے کا جذبہ بھی پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان خاص طور پر نوجوان خواتین  پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں۔

سوال: امریکا میں سابق سفیر کی حیثیت سے کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستان موجودہ حالات میں امریکا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری چاہتا ہے ؟

شیری رحمان: اس وقت دو طرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں لیکن پھر بھی پاکستان اور امریکا کو بطور ذمہ دار جوہری طاقتوں کے، کشیدگی کی بجائے  سفارت کاری اور سمجھداری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان تبدیلی سے گزر رہا ہے اور امریکہ میں بھی عوامیت پسندی دیکھی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کو درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

سوال: کیا پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری متوقع ہے ؟

شیری رحمان: اگر مودی اپنےسخت اور انتہا پسندانہ خیالات کو پیچھے چھوڑ کر  ایک دیر پا مذاکراتی عمل چاہیں تو پاکستان کو بھی بات چیت کا حصہ بننا چاہیے۔ دونوں ممالک کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تناؤ میڈیا کے ذریعے کم نہیں ہوگا اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک میں برف پگھلنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دو جوہری طاقتیں جنوبی ایشا میں ٹیکنالوجی، سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے اہداف کا سامنا کر سکیں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف دیر پا مذاکراتی عمل ہی ہے۔ بھارتی سرکار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان مذاکراتی عمل میں کشمیر جیسے مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

 دہشت گردی کا تعلق تقریبا ہمیشہ پر تشدد انتہا پسندی سے ہوتا ہے۔ آج پر تشدد انتہا پسندی عالمی سطح پر عام ہو گئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تاہم سیکولر بھارت کوشش کر رہا ہے کہ انتہا پسندانہ عوامل کو شکست دے۔ اسی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے لیکن ہمیں احساس ہے کہ ہمیں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے کہ ہم  دہشت گردوں کے ہاتھوں مزید فوجیوں اور شہریوں کی زندگیاں نہ گنوائیں۔ پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے کو مختلف مراحل میں حل کیا جاسکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید