بحرین: مرکزی اپوزیشن گروپ کو تحلیل کرنے کے لیے کارروائی شروع
6 مارچ 2017بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی بی این اے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات میں دبئی سے پیر چھ مارچ کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں ملکی وزارت انصاف نے آج دائر کیے گئے ایک مقدمے میں بنیاد اس بات کو بنایا ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک ایکشن سوسائٹی نامی سیکولر اپوزیشن گروپ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو رہا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ بحرین کی وزارت انصاف کے مطابق اس اپوزیشن گروپ پر ملک میں مروجہ قوانین کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے کے علاوہ یہ الزام بھی ہے کہ وہ دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ مجرموں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہوئے ’تشدد اور بدامنی پھیلانے کی توثیق‘ کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔
سنی عرب ریاستوں کا اصل دشمن ’ایران‘ ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ
احتجاج کے باجود بحرین میں تین شیعہ شہریوں کو پھانسی
بحرین: شیعہ اکثریت کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کرنے کا حربہ؟
اس مقدمے میں وزارت انصاف نے ملکی عدلیہ سے درخواست کی ہے کہ اس اپوزیشن گروپ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کر دیا جائے۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ وزارت انصاف کا الزام ہے کہ یہ لادین اپوزیشن گروپ، جو عربی زبان میں مختصراﹰ ’وعد‘ کہلاتا ہے، ملک میں ’قانون کی حکمرانی کی شدید نوعیت کی مسلسل خلاف ورزیوں‘ کا مرتکب ہوا ہے۔
بحرین میں حکام گزشتہ چند ماہ کے دوران ملکی اپوزیشن پر اپنے دباؤ میں واضح طور پر اضافہ کر چکے ہیں۔ آج دائر کیے گئے مقدمے سے قبل گزشتہ برس حکومت نے ملک کے سب سے بڑے اپوزیشن گروپ ’الوفاق‘ پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے بحرین کے اعلیٰ ترین شیعہ مذہبی رہنما کی شہریت بھی منسوخ کر دی تھی۔
بحرین کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ وہاں کی آبادی میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے جبکہ وہاں اقتدار سنی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کے پاس ہے۔ دو ہزار گیارہ میں ’عرب اسپرنگ‘ کے دوران کئی ممالک میں نظر آنے والی عوامی احتجاجی تحریکوں کے دوران بحرین میں بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے تاہم تب حکومت نے انہیں ہمسایہ خلیجی عرب ریاستوں کی سیاسی اور عسکری مدد سے پوری طاقت سے کچل دیا تھا۔
بحرین کی عدالت نے اہم شیعہ سیاسی جماعت تحلیل کر دی
بحرین: پانچ شیعہ افراد کو سزائیں اور شہریت منسوخ
اس کے بعد سے بحرین کی شیعہ مسلم اکثریت کافی حد تک خوف کا شکار ہے۔ اس خوف میں خاص طور پر اسی سال اس وقت اضافہ ہوا، جب تین ایسے افراد کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا، جنہیں یہ سزائیں 2014ء میں پولیس اہلکاروں پر ایک ہلاکت خیز بم حملے کے جرم میں سنائی گئی تھیں۔
ان تازہ خونریز واقعات میں اب تک دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ تین مبینہ مفرور عسکریت پسند بھی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔
بحرین کی طرف سے ایران پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اس خلیجی ریاست میں شیعہ مسلمانوں کو ریاست کے خلاف پرتشدد کارروائیوں پر اکسا رہا ہے۔ تہران میں ایرانی رہنما اس الزام کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔
اسی دوران کل اتوار پانچ مارچ کے روز بحرین میں ایک اعلیٰ حکومتی مشاورتی ادارے نے یہ اجازت بھی دے دی تھی کہ ملکی فورسز ایسے عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلا سکتی ہیں، جن پر قومی سکیورٹی دستوں پر حملوں کا الزام ہو۔