1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

بائیڈن اور شی کی پہلی صدارتی ملاقات: جوہری دھمکیوں کی مذمت

14 نومبر 2022

انڈونیشی جزیرے بالی پر جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر موجودہ امریکی اور چینی صدور کی پہلی بالمشافہ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ یوکرین کی جنگ سمیت کسی بھی تنازعے میں جوہری ہتھیار دوبارہ کبھی استعمال نہیں کیے جانا چاہییں۔

https://p.dw.com/p/4JVjk
U.S. President Joe Biden shakes hands with Chinese President Xi Jinping as they meet on the sidelines of the G20 leaders' summit in Bali, Indonesia
امریکی صدر جو بائیڈن چینی صدر شی جن پنگ سے ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: Kevin Lamarque/REUTERS

انڈونیشیا کے جزیرے بالی کے شہر نوسا دعا میں ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے بیس ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کی پیر چودہ نومبر کو ہونے والی ملاقات تین گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی۔

پوٹن نے یوکرین میں 'حساب لگانے میں غلطی کر دی'، بائیڈن

یہ ملاقات جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد سے لے کر اب تک چینی امریکی سربراہان مملکت کی اولین بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے مابین آج تک کی صدارتی سطح کی بات چیت صرف ٹیلی فون پر یا ورچوئل ہی ہوئی تھی۔

اختلافات کو تنازعہ بننے سے روکنے کی کوشش

بائیڈن شی ملاقات کے حوالے سے اطراف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات امریکہ اور چین کی ان کوششوں کا حصہ ہے،  جن کے تحت یہ دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ ان کے مابین پائے جانے والے موجودہ اختلافات بڑھ کر کسی باقاعدہ تنازعے کی شکل اختیار کر لیں۔

اسی لیے اس ملاقات میں جو بائیڈن اور شی جن پنگ کی کوشش یہی رہی کہ واشنگٹن اور بیجنگ کو اپنے باہمی اختلافات کو اس طرح سنبھالنا اور انہیں حل کرنا چاہیے کہ وہ بگڑ کر کوئی باقاعدہ تنازعہ نہ بنیں۔

US President Joe Biden (R) and China's President Xi Jinping (L) meet on the sidelines of the G20 Summit in Nusa Dua on the Indonesian resort island of Bali
یہ ملاقات جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد سے اب تک موجودہ چینی امریکی سربراہان مملکت کی اولین بالمشافہ ملاقات تھیتصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

امریکہ ایک سپر پاور ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی۔ اسی طرح چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر دوسری سب سے بڑی معیشت بھی۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں۔

تائیوان کو براہ راست فوجی امداد کی جانب امریکہ کا پہلا قدم

واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین جن امور پر واضح اختلافات پائے جاتے ہیں، ان میں یوکرینی جنگ میں چین کی طرف سے روس کی حمایت، تائیوان کی وجہ سے کشیدگی اور تجارتی روابط میں مشکلات کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے علاقائی دعووں کے باعث پیدا ہونے والا تناؤ سب سے نمایاں ہیں۔

جوہری ہتھیاروں کے عدم استعمال پر اتفاق

امریکی اور چین صدور کی پیر کے روز ہونے والی ملاقات بالی کے جزیرے پر جی ٹوئنٹی سمٹ کے آغاز سے ایک دن پہلے ہوئی۔ یہ سمٹ کل منگل کو شروع ہو رہی ہے۔

اس سمٹ کے بارے میں غالب امکان یہ ہے کہ اس پر زیادہ تر روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کا موضوع چھایا رہے گا۔

یوکرینی جنگ کے پس منظر میں بین السطور میں دی جانے والی جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی دھمکیوں کے تناظر میں چینی اور امریکی صدور نے اپنی ملاقات میں اتفاق رائے کا اظہار کیا کہ یوکرین کی جنگ سمیت کسی بھی تنازعے میں جوہری ہتھیار کبھی بھی استعمال نہیں کیے جانا چاہییں۔

بائیڈن نے کیا کہا؟

اس ملاقات میں امریکی اور چینی سربراہان مملکت کے ساتھ آنے والے قدرے چھوٹے وفود بھی شریک ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق تقریباﹰ ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے کئی حساس موضوعات پر گفتگو کی۔

تائیوان کے مسئلے پر امریکہ اور چین نے ایک دوسرے کو متنبہ کیا

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ان موضوعات میں یوکرین کی جنگ، شمالی کوریا کا مسئلہ، تائیوان کے تنازعے کی وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی اور ہانگ کانگ اور تبت جیسے موضوعات کے علاوہ انسانی حقوق کی صورت حال پر پائی جانے والی تشویش بھی شامل تھی۔

شی نے کیا کہا؟

بیجنگ میں ملکی وزارت خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین کے لیے تائیوان کا معاملہ ایک 'سرخ لکیر‘ ہے، جسے پار کرنے کی امریکہ کو کوئی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق صدر شی نے اپنے امریکی ہم منصب بائیڈن پر واضح کر دیا کہ تائیوان کا مسئلہ چین کے انتہائی کلیدی مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ ساتھ ہی صدر شی نے یہ تنبیہ بھی کی کہ چینی امریکی تعلقات میں یہی وہ 'ریڈ لائن‘ ہے جسے عبور کرنے کی امریکہ کو کبھی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔

چینی وزارت خارجہ کے مطابق صدر شی کی سوچ یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے مشترکہ مفادات ''زیادہ ہیں، کم نہیں۔‘‘ اس کے علاوہ یوکرین کی جنگ کی حوالے سے بھی چینی صدر نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔

م م / ش ر (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)