1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک مرتا ہوا انسان سترہ انسانوں کو زندگی دے سکتا ہے

زبیر بشیر26 اگست 2013

اگر پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کے قانون کو بہتر اور مؤثر انداز میں مشتہر کیا جائے تو کسی ایک شخص کی زندگی کے گل ہوتے ہوئے چراغ سے حیات کی سترہ شمعیں روشن کی جا سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/19W2x
تصویر: imago/imagebroker

پاکستان میں ہر سال پچاس ہزار سے زائد افراد اپنے مختلف اعضاء کی ناکامی کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں آٹھ ہزار افراد دل کی بیماریوں، پندرہ ہزار جگر کے عارضے اور 20 ہزار کے قریب گردوں کی ناکامی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

اگر گردوں کی بیماریوں کے شکار لوگوں کو مناسب وقت پر کوئی گردہ عطیہ کرنے والا مل جائے تو ان کی جان بچ سکتی ہے
اگر گردوں کی بیماریوں کے شکار لوگوں کو مناسب وقت پر کوئی گردہ عطیہ کرنے والا مل جائے تو ان کی جان بچ سکتی ہےتصویر: FARS

پاکستان میں گردوں اور ان سے متعلقہ بیماریوں کی شرح انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ذیابیطس کی بیماری ہے۔ اس حوالے سے سندھ انسٹیٹیوٹ برائے امراض گردہ کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں پاکستان ان ممالک میں دسویں نمبر پر ہوگا جہاں اس بیماری کے شکار لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔

پاکستان میں رائج قانون کے مطابق کوئی بھی شخص وصیت کر سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کردیے جائیں
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق کوئی بھی شخص وصیت کر سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کردیے جائیںتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں اگر گردوں کی بیماریوں کے شکار لوگوں کو مناسب وقت پر کوئی گردہ عطیہ کرنے والا مل جائے تو ان کی جان بچ سکتی ہے۔ وہاں مؤثر قانون سازی موجود ہونے کے باوجود بھی گردے عطیہ کرنے والے نہیں ملتے۔ اس وجہ سے لوگوں کو ڈائلسز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سن 1995 سے ڈائلسز کے سہارے جی رہی 36 سالہ صبیحہ محمد صالح کا کہنا ہے کہ گردے تو دور کی بات پاکستان میں لوگ خون عطیہ کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔

پاکستان میں رائج قانون کے مطابق کوئی بھی شخص وصیت کر سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کردیے جائیں لیکن وہاں گذشتہ تین برسوں میں صرف دو ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں مرنے والے کے اعضاء عطیہ کیے گئے ہیں۔ وصیت کے باوجود بھی مرنے والے کے اہل خانہ ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے کہا کہ اگر ہم پاکستان میں ان لوگوں کی زندگی بچانا چاہتے ہیں جو محض اپنے کسی ایک عضو کی ناکامی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء ہیں تو ہمیں اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہوگا۔ یہ میڈیا، سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔