1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایپی میں چارخواتین کے قتل پروفاقی حکومت کی طرف سے خاموشی

26 فروری 2021

شمالی وزیرستان میں قتل کی جانیوالی خواتین کے لواحقین نے وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے انہیں امدادی رقوم کے چیک دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3py5Y
Bericht über das Töten von Arbeitern von NGOs
تصویر: Fareed Ullah Khan/DW

مقامی صحافی کے مطابق کمشنر بنوں شوکت علی یوسفزئی نے مرنے والی خواتین کے رشتہ داروں کو فی کس پانچ لاکھ روپے کا چیک دیا ہے۔ ضلع شمالی وزیر ستان کے پولیس افسر شفیع اللہ خان گنڈا پور نے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''شمالی وزیرستان میں غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرنے والی چار خواتین کے قتل کے حوالے سے کاؤنٹر ٹیررازم ‍ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ درج کی گئی ہے۔  ایک ماسٹر مائنڈ مارا گیا ہے جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین اور وحشتناک  واقعہ ہے جس سے پورا علاقہ افسردہ ہے۔  ان کے بقول،'' ضلعی انتظامیہ کی جانب سے غمزدہ خاندان کی مالی امداد کی جارہی ہے جبکہ تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حکام جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ ‘‘

خواتین شدت پسندوں کا ٹارگٹ کیوں بنیں؟

Bericht über das Töten von Arbeitern von NGOs
مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی کارکن ان چار خواتین کے قتل پر احتجاج کر رہی ہیں۔ تصویر: Fareed Ullah Khan/DW

شمالی وزیر ستان کے علاقے میرعلی میں خواتین کو سلائی کڑھائی کی تربیت دینے اور ‍خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بنوں سے تعلق رکھنے والی چار خواتین کو ایپی کے علاقے میں اس وقت گولی ماری گئی جب وہ معمول کے کام میں مصروف تھیں ۔ ان چار خواتین میں دو سگی بہنیں بھی شامل تھیں۔  مرنے والی ایک خاتون ورکر عائشہ بی بی کے بھائی زاہد نے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پورا خاندان غمزدہ ہے حکومت کی جانب سے کسی وزیر یا منتخب نمائندے نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ آج ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں نے رابطہ کیا جس پر انکے والد اور دیگر رشتہ دار وہاں گئے ہیں ضلعی انتظامیہ کے بعض لوگ تیسرے روز فاتحہ خوانی کے لیے آئے تھے لیکن وہاں کوئی اعلان وغیرہ نہیں کیا گیا تھا۔‘‘

Bericht über das Töten von Arbeitern von NGOs
ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے چار خواتین کے قتل کی شفاف چھان بین کا مطالبہ کیا ہے۔تصویر: Fareed Ullah Khan/DW

میر علی کے اس واقعے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی دارالحکومت پشاور میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم (ایچ ار سی پی) عورت فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے اس کیس کی مکمل تحقیقات اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ عورت فاؤنڈیشن سے منسلک صائمہ منیر،شبینہ ایاز اور احتجاج میں شامل دیگر خواتین  کا کہنا تھا، '' سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت خاموش ہے۔‘‘ انکا کہنا ہے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے اس کی پوری تحقیقات عوام کے سامنے لائی جائے۔ خواتین مجبوری میں گھر سے نکلتی ہیں اور جہاں حکومت خواتین کی 'امپاورمنٹ‘  کا دعویٰ کرتی ہے تو انہیں تحفظ بھی فراہم کرے۔‘‘

صحافی کا قتل، افغان خواتین مدد کی خواہاں

قتل کی جانیوالی خواتین کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تھا جو شمالی وزیرستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم  کے مالی تعاون سے خواتین کو دستکاری یا سلائی کڑھائی سیکھنے میں مدد فراہم کرتی تھی ۔

فرید اللہ خان پشاور