1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این جی اوز کے لیے ’نو گو ایریاز‘، پاکستان میں نئی پالیسی

فرید اللہ خان، پشاور13 مارچ 2015

پاکستان نے قبائلی، نیم قبائلی اور خیبر پختونخوا کے دو اضلاع میں ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں کے کام کرنے کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ان پابندیوں سے مبرا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1EqNn
وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال میں مقامی این جی اوز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی امدادی تنظیمیں بھی سرگرمِ عمل رہی ہیں
وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال میں مقامی این جی اوز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی امدادی تنظیمیں بھی سرگرمِ عمل رہی ہیںتصویر: DW/D. Baber

دیگر تمام این جی اوز کے اہلکاروں کے بغیر پیشگی اطلاع اور این او سی کے ان علاقوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کو ارسال کردہ اس نئی پالیسی کی رُو سے ’’نو گو اور گو‘‘ ایریاز کی نشاندہی کی گئی ہے۔

نئی پالیسی کی رُو سے غیر ملکی اہلکار تمام قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سمیت خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ہنگو اور ٹانک میں نہیں جا سکیں گے جبکہ انہیں کنٹونمنٹ یا چھاؤنی کی حدود میں قیام کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔

جلو زئی کیمپ کا ایک منظر
جلو زئی کیمپ کا ایک منظرتصویر: DW

فاٹا سیکرٹریٹ کے ایک افسرنے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پہلے سے بھی ایک طریقہٴ کار موجود ہے کہ جو غیر ملکی این جی او کسی مخصوص علاقے میں کام کرنے کی خواہاں ہو، وہ متعلقہ ادارے سے باقاعدہ اجازت لے کر وہاں جا سکتی ہے لیکن اب قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر اس پالیسی کو مزید سخت کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پالیسی قیام امن کو یقینی بنانے اور غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے لائی گئی ہے۔

جب اس سلسلے میں ٹرائیبل این جی اوز کنسورشیم کے سربراہ زر علی خان سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا:’’غیر ملکی این جی اوز اس وقت تک عوامی فلاح کے من‍صوبے مکمل نہیں کر سکتیں، جب تک مقامی این جی اوز اور سول سوسائٹی اُن کا ساتھ نہ دے۔ جہاں تک مقامی این جی اوز کا تعلق ہے تو ان کی اکثریت حکومت پاکستان کے سوسائٹی ایکٹ،کمپنی ایکٹ اور سوشل ویلفیئر آرڈیننس کے تحت رجسٹرڈ ہوتی ہیں، جن کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے اور جب تک آڈٹ نہ ہو، انہیں پراجیکٹ نہیں دیا جاتا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت این او سی کے لیے گیار ہ محکموں کے پاس جانے کے بعد آرمی سے بھی کلیئرنس لینا ہو گی۔ ایسے میں پراجیکٹ کا سروے کرتے کرتے سال لگ جائیں گے۔ یوں باہر سے کام کے لیے ملنے والی رقوم ضائع ہونے یا پھر مخصوص اداروں کے استعمال میں جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

وادیٴ سوات سے نقل مکانی کرنے والے افراد نے مہینوں کیمپوں میں پناہ لیے رکھی، جہاں غیر ملکی این جی اوز بھی اُنہیں اَشیائے ضرورت فراہم کرتی رہیں
وادیٴ سوات سے نقل مکانی کرنے والے افراد نے مہینوں کیمپوں میں پناہ لیے رکھی، جہاں غیر ملکی این جی اوز بھی اُنہیں اَشیائے ضرورت فراہم کرتی رہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس نئی پالیسی میں بعض غیر ملکی اداروں کے لیے نرمی بھی کی گئی ہے۔ انہیں کام کرنے اور مخصوص علاقوں میں جانے کے لیے پاکستانی ویزے کے علاوہ این او سی، حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی کاپی، ان کے ساتھ فعال مقامی لوگوں کے لیے شناختی کارڈ اور وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ ایسے اہلکاروں کو فاٹا سیکرٹریٹ کو پیشگی اطلاع دینا ہو گی تاکہ ان کی سیکورٹی کے لیے خصوصی انتظامات کرائے جا سکیں۔

نئی پالیسی کے تحت انفرادی دوروں کے شیڈول کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں کسی بھی غیر ملکی اہلکار کو کسی ایسے علاقے می‍ں جانے کی اجازت نہیں ہو گی، جہاں سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی بین الااقوامی سرحد ہو جبکہ انہیں ان علاقوں میں تصویریں اتارنے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔

ٹرائیبل این جی اوز کنسورشیم کے سربراہ زرعلی خان کا کہنا ہے:’’بنیادی طور پر نیشنل ایکشن پلان کے دوران حکومت نے دہشت گردی میں ملوث افراد کی فنڈنگ روکنے کے لیے متعدد اقدامات اُٹھائے ہیں اور شاید یہ قدم بھی اسی تناظر میں اُٹھایا گیا ہے لیکن یہ این جی اوز تو حکومت پاکستان کے قوانین کے تحت رجسٹرڈ اور ڈونرز کے ساتھ ساتھ پاکستانی اداروں کو بھی جواب دہ ہوتی ہیں۔ جب تک عوام کے ساتھ رابطوں میں اضافہ نہیں ہو گا، سول سوسائٹی کو آپ تعمیر نو اور بحالی میں شریک نہیں کر سکیں گے۔ عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو ترقی کے راستوں میں رکاوٹیں آئیں گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طر‌ح کی پابندیوں کی بجائے ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے، جو دہشت گردی میں ملوث افراد کو مالی وسائل فراہم کرنے میں ملوث ہوں۔