1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم ایم اے کی الیکشن کمیشن کے کردار پر تنقید

15 جولائی 2018

متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر سراج الحق نے میڈیا کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے نگران حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر میڈیا پر قدغنیں جاری رہی تو الیکشن کی شفافیت مشکوک ہوجائے گی۔

https://p.dw.com/p/31UnK
Pakistan MMA Wahlkampf in Karachi
تصویر: DW/R. Saeed

سراج الحق نے اتوار کے دن کراچی میں جلسے سے قبل ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم ناصر الملک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ الیکشن میں فریق بننے کے بجائے نگرانی کا کام انجام دیں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ کراچی 35 برسوں سے یرغمال تھا، پولنگ اسٹیشنوں پر ٹھپا مافیا کا راج ہوتا تھا لیکن مذہبی جماعتوں نے ہمت نہیں ہاری اور عوام کی خدمت کی۔

دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے باعث سنی اور شعیہ مذہبی جماعتوں کے اس جلسے کے لیے سیکورٹی انتظامات انتہائی سخت تھے۔ ایس ایس پی نعمان صدیق کے مطابق جلسے میں شریک رہنماوں کو سکیورٹی خطرات ہیں اور ملک میں انتخابی اجتماعات پر جس انداز میں دہشت گردانہ حملے کیے گئے ہیں، ان کو مد نظر رکھتے ہوئے سیکورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  ایک ہزارسے زائد پولیس اہلکار میدان کے باہر تعینات کیے گئے جبکہ جلسہ شروع ہونے سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ نے وقفے وقفے سے میدان کی کئی بار باریک بینی سے سرچنگ بھی کی جبکہ  تمام داخلی راستوں پر واک تھرو گیٹ نصب کئے گئے، جلسے میں آنے والے ہر شخص کو ان واک تھرو گیٹس سے گزرنے کے بعد جامہ تلاشی بھی دینی تھی۔

Pakistan MMA Wahlkampf in Karachi
اس جلسے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کیتصویر: DW/R. Saeed

مبصرین کے مطابق پاکستان کے شہروں میں انتخابی مہم کے انداز تبدیل ہو رہے ہیں اور ملک گیر جماعتیں ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعے مہم پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ لیاری میں بلاول کی ریلی کو پیش آنے والے ناخوش گوار واقعہ کے بعد سیاسی جماعتیں خصوصاٰ اقتدار میں رہنے والی جماعتیں ووٹرز کے ممکنہ ردعمل سے خوفزدہ بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لہذا ان کی کوشش ہے کہ بڑے جلسوں کی بجائے اشتہارات کے ذریعے انتخابی مہم چلائی جائے جبکہ تحریک انصاف سوشل میڈیا کو بھی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر رہی ہے.

پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نواز کی طرح متحدہ مجلس عمل کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن کے کردار پر مسلسل تنقید اور اعتراضات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایم ایم اے کراچی کے صدر حافظ نعیم کہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لیے یکساں ماحول اور مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے، ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اعتراض ہے کہ اگر انتخابات میں بینرز اور جھنڈے نہیں لگیں گے تو کب لگیں گے اور اگر جھندے اور بینرز اتارے جانے ہیں تو پھر سب کے اتارے جائیں۔ شہر میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں دیگر جماعتوں نے بینرز اور جھنڈے لگائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ٹی وی پر اشتہارات کے حوالے سے بھی ضابطہ اخلاق واضح ہونا چاہیے۔ بڑی جماعتیں تو کروڑوں روپے کی اشتہاری مہم چلا رہی ہیں اس کا بھی تو کوئی حساب کتاب ہونا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں اب تک سب سے زیادہ اور موثر انتخابی مہم متحدہ مجلس عمل نے ہی چلائی ہے، جس کی بنیادی وجہ جماعت اسلامی کا کراچی میں مضبوط اور مؤثر سیاسی سیٹ اپ ہے۔  ایم ایم اے کے کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے والے زیادہ تر امیدوار بھی جماعت اسلامی سے ہیں اور جماعت اسلامی نے زیادہ تر ٹکٹ بھی اردو بولنے معروف رہنماوں کو ہی دیے ہیں جبکہ شہر کے بیرونی سرکل کی پشتوں آبادیوں پر جمعیت علما اسلام کا اثر رسوخ  زیادہ ہے، لہذا وہاں امیدوار جے یو آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ ایم ایم اے کے امیدوار جن حلقوں سے میدان میں ہیں وہ ان ہی حلقوں کے رہائشی ہیں اور ووٹرز کئی برسوں سے انہیں دیکھ رہے اور جانتے ہیں کہ کس امیدوار نے ان کے مسائل کے حل کے لیے کیا کیا؟

پاکستان: انتہا پسندوں کی انتخابی مہموں میں تیزی