ایرانی پارلیمان نے ملکی وزیر اقتصادیات کو بھی برطرف کر دیا
26 اگست 2018تہران سے اتوار چھبیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق مسعود کرباسیان کی ملکی پارلیمان کی طرف سے ان کے عہدے سے برطرفی ایک ایسے وقت پر عمل میں آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی بحالی کے بعد ایرانی کرنسی ریال کی قدر میں واضح کمی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔
مسعود کرباسیان کا اتوار کے روز مواخذہ ایرانی پارلیمان کا حالیہ دنوں میں ایسا دوسرا اقدام ہے، جس کے نتیجے میں اب تک صدر حسن روحانی کی کابینہ کے دو وزراء کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف کرباسیان کی برطرفی اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ نئی امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حالانکہ ایرانی مذہبی اور سیاسی رہنما ایسے اثرات کی شروع سے ہی نفی کرتے آئے ہیں۔
چھبیس اگست کے روز کرباسیان کے مواخذے کے لیے تہران کی قومی پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری میں 137 ارکان نے وزیر اقتصادیات کے ان کے عہدے سے برطرف کیے جانے کے حق میں رائے دی جب کہ 121 ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ دو ارکان پارلیمان نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا اور اپنے رائے محفوظ رکھی۔
کرباسیان کی برطرفی کی وجہ ایرانی معیشت کو درپیش بحران بنا اور اسی موضوع پر پارلیمان نے کرباسیان کو وضاحت کے لیے بھی طلب کر لیا تھا۔ اس طلبی کے دوران ان سے ایرانی معیشت کو درپیش بحران کے بارے میں سوالات پوچھے گئے، جن کا پارلیمان کے ارکان کی اکثریت کی رائے میں مسعود کرباسیان کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
کرباسیان کے ناقدین کے مطابق برطرف کیے جانے والے وزیر امریکا کی طرف سے نئی پابندیوں کے نفاذ سے قبل ایسی کافی کوششیں کرنے میں ناکام رہے تھے، جن کی مدد سے ملکی معیشت کو مناسب حد تک سنبھالا دیا جا سکتا۔
ساتھ ہی کرباسیان کی برطرفی کے حامی ارکان پارلیمان کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ صدر حسن روحانی کی حکومت ان مثبت مواقع کو ایران کے حق میں استعمال کرنے میں ناکام رہی، جو تہران کو 2015ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی وجہ سے ملے تھے۔
کرباسیان کی برطرفی سے قبل ایک رکن پارلیمان نے اپنے خطاب میں یہ الزام بھی لگایا تھا کہ صدر حسن روحانی کی حکومت ’ایک غیر منظم حکومت ہے، جس کے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے اور جو غیر مؤثر بھی ہے۔‘‘ اس رکن پارلیمان کے مطابق اس صورت حال کا بظاہر ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مسعود کرباسیان کی برطرفی سے صدر روحانی پر سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
ایرانی پارلیمان کے سخت گیر سوچ کے حامل ارکان کی طرف سے ان پر لگایا جانے والا یہ الزام بھی اپنے اثرات میں شدید تر ہو گیا ہے کہ حسن روحانی اب تک وہ سب کچھ کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کا انہوں نے گزشتہ برس اپنے دوبارہ انتخاب سے پہلے ایرانی عوام سے وعدہ کیا تھا۔
آج اتوار کے روز وزیر اقتصادیات مسعود کرباسیان کے مواخذے سے قبل تہران میں ملکی پارلیمان نے اسی مہینے ملکی وزیر محنت کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جولائی کے مہینے میں صدر حسن روحانی نے ایرانی مرکزی بینک کا صدر بھی تبدیل کر دیا تھا۔
م م / ع س / روئٹرز، اے پی