1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی وزیرِ خارجہ کی پاکستان آمد

عبدالستار، اسلام آباد
12 مارچ 2018

مشرقِ وسطی کی کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے دورہِ پاکستان کو سیاسی مبصرین بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2uBfL
Iranischer Außenminister Zari in Pakistan
تصویر: Reuters/C. Firouz

ایرانی وزیرِ خارجہ پاکستان کے دورے پر آج اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات بھی کی۔ اس کے علاوہ ایرانی وزیرخارجہ نے پاک ایران بزنس فورم کی ایک تقریب سے بھی خطاب کیا۔

افغانستان: قیام امن کے لیے کیا ایک اور بون اجلاس ضروری ہے؟

’دوہری‘ امریکی پالیسی کے مقابلے کے لیے پاکستان، ایران متفق

یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب امامِ کعبہ ڈاکڑ صالح بن محمد بھی پاکستان میں موجود ہیں اور آج انہوں نے بھی اسلام آباد میں صدر مملکت ممنون حسین، وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقاتیں کیں۔

جواد ظریف سے ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا اور اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ ایران پاکستان پائپ لائن کو عملی جامہ پہنانے میں جو مسائل درپیش ہیں، اسلام آباد ان کے حل کے لیے کام کرے گا۔

سیاسی مبصرین اس دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں اس دورے کا مقصد ان ایرانی تحفظات پر بات چیت کرنا ہے، جو پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوج بھیجنے کے فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ خطے کی صورتِ حال اس دورے کا محور ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں پاکستان کی طرف سے سعودی عرب فوج بھیجے جانے پر تہران پریشان ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کا کہنا تھا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ ہم پراکسی بنے ہوئے ہیں اور اپنے قومی مفادات کا نہیں سوچتے۔ اسی کی دہائی میں ہم نے امریکا کے لیے لڑائی لڑی اور اب ہم نے، اس حقیقت کے باوجود کے ہماری پارلیمنٹ نے یہ قرارداد پیش کی تھی کہ سعودی عرب فوج نہ بھیجی جائے لیکن پھر بھی ہم نے فوج بھیج دی ہے، جس سے ایران کو شکایت ہے۔ ہمیں اس شکایت کو سننا چاہیے اوراپنی فوجوں کو کہیں بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ہمارا مسئلہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمیں ہمارے مزدور نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں اور ہم فوراﹰ ڈر جاتے ہیں۔ اس ڈر کی وجہ سے امریکا نے ہمیں دبایا۔ آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں نے دبایا اور اب سعودی عرب دبا رہا ہے ۔ ہمیں اپنے ملکی مفادات کو دیکھنا چاہیے اور سعودیہ ہو یا ایران ہمیں کسی کی آپس کی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہمیں ایران سے تعلقات بہتر رکھنا چاہیں۔ وہ اپنے حصے کی پائپ لائن پر کام کر چکا ہے۔ ہمیں بغیر کسی دباؤ کے آئی پی کی تکمیل کرنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں بھی امن و استحکام آئے گا۔‘‘

لیکن دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے مفادات سے آگاہ ہیں۔’’میرے خیال میں ایرانی وزیرِ خارجہ عسکری اور سیاسی قیادت دونوں سے ملیں گے اور انہیں اس یقین دہانی پر بھروسہ ہے، جو آرمی چیف نے تہران کو کچھ مہینوں پہلے کرائی تھی کہ پاکستان کی فوج ایران کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اس دورے کا مقصد افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، خطے میں امریکی موجودگی اور ایران پاکستان پائپ لائن سے متعلق ہے۔ شام و عراق سے بھاگ کر بڑے پیمانے پر داعش کے کارندے افغانستان آ گئے ہیں، جس میں ایک بڑی تعداد روسی شہریوں کی بھی ہے۔ داعش کی موجودگی نہ صرف ایران بلکہ پاکستان اور روس کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اسی لیے ایران پاکستان کے ساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنا چاہتا ہے۔‘‘

امجد شعیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطے میں امریکا کی موجودگی ایران سمیت خطے کے سارے ممالک کے لیے پریشان کن ہے۔ ’’ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کو معلوم ہے کہ امریکا داعش کا بہانہ بنا کر یہاں طویل قیام کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر داعش کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جس میں ان کو خطے کے دوسرے ممالک کی بھی حمایت ہوگی۔ جب داعش ختم ہوجائے گی تو امریکا کا یہاں رکنے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔‘‘

کیا پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں توازن قائم کیا ہوا ہے؟

افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟