1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستانی اور افغان شیعہ، شام میں لڑائی کے لیے بھرتی جاری‘

صائمہ حیدر
16 ستمبر 2017

امریکا میں قائم ’جمہوریتوں کے دفاع کی فاؤنڈیشن‘ کے مطابق ایرانی حکام ہزاروں پاکستانی اور افغان شیعہ شہریوں کو شام میں لڑنے کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔ ان افراد کو پرکشش تنخواہوں اور مراعات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2k6T2
Kämpfe im Irak Mehdi Kämpfer 19.06.2014
تصویر: Reuters

امریکا میں قائم ’ڈیفنس فار ڈیموکریسیز فاؤنڈیشن‘ سے منسلک ایرانی تحقیقی تجزیہ کار امیر توماج کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں ’’اسد حکومت کی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے والے افغان شیعہ جنگجوؤں کی تعداد چھ ہزار ہے جبکہ وہاں ’زینبیون‘ نامی بریگیڈ کے پرچم تلے لڑنے والے شیعہ پاکستانیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔‘‘

انسداد دہشت گردی کے حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح بھرتی کیے گئے افراد کو چھ سو امریکی ڈالر ماہانہ کے برابر تنخواہ، ایران میں ممکنہ ملازمت کی پیشکش اور وہاں ایک مکان دینے کے وعدے بھی کیے جاتے ہیں۔

امیر توماج کے بقول افغان صوبے خراسان میں شیعہ اقلیت پر بڑھتے ہوئے حملے ممکنہ طور پر شام میں اسد نواز جنگجوؤں کے ’فاطمی بریگیڈ‘ میں افغان شیعہ شہریوں کی شمولیت کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ افغان صوبے خراسان میں شیعہ اقلیت پر ایسے کئی حملوں کی ذمہ داری جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش قبول کر چکا ہے۔

توماج نے مزید بتایا، ’’لوگوں کو خدشہ تھا کہ اس کے نتیجے میں خونریزی بڑھے گی۔ اس لیے کہ فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے داعش کی اپنی ہی ایک حکمت عملی ہے۔‘‘

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ افغانستان میں شیعہ مسلمان خوفزدہ ہیں۔ کابل میں جمعے کی نماز ادا کرنے کے بعد چند مقامی شیعہ افغانوں نے بتایا کہ اب (شیعہ) مساجد میں آنے والوں کی تعداد ’پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی‘ رہ گئی ہے۔ ’’اس سے قبل جمعے کے روز دوپہر کے وقت مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔‘‘

Symbolbild IS Soldaten
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

پاکستان میں بھی فرقہ ورانہ مخالفت کے واقعات بالعموم جلد ہی تشدد میں بدل جاتے ہیں۔ شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ پاکستان میں بھی شیعہ مسلم اقلیت پر کیے گئے متعدد خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ اس دوران کئی مزارات پر خود کش حملے بھی کیے گئے، جن میں مختلف علاقوں میں درجنوں عقیدت مند مارے گئے۔

امیر توماج کے مطابق پاکستان سے شیعہ جنگجوؤں کی بھرتی کے حوالے سے ایران کے لیے سب سے زرخیز مقام پارہ چنار ہے، جو افغان سرحد سے متصل پاکستانی قبائلی علاقے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے اسی علاقے میں کئی بار مقامی شیعہ باشندوں پر ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں سے کئی کی ذمے داری داعش یا ممنوعہ سنی عسکریت پسند تنظیمیں قبول کر چکی ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی شیعہ افراد کی ایران کے لیے ایسی بھرتیاں شمالی پاکستان کے علاقوں گلگت اور بلتستان سے بھی کی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے پاکستانی انٹیلیجنس اہلکار  نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ شام کے لیے پاکستانی شیعہ افراد کی یہ بھرتیاں عموماﹰ ایران سے روابط رکھنے والی ایسی مذہبی شخصیات کے ذریعے کی جاتی ہیں،جن میں سے کئی ایرانی شہروں قم یا مشہد کے مذہبی تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔

افغان شیعہ علماء کی کونسل کے ایک رکن میر حسین ناصری نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ان کے ملک سے شیعہ فائٹر اس لیے شام جاتے ہیں کہ وہاں ’شیعہ مذہبی مقامات کو داعش کے حملوں سے بچا سکیں‘۔

اسی بارے میں پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے ذمے دار ملکی ادارے کے سربراہ احسان غنی نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ پاکستان سے بھی لوگ شام میں لڑنے کے لیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے تدارک کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ کون زیارات کے لیے شام جا رہا ہے اور کون جنگ لڑنے کے لیے۔‘‘

احسان غنی کے بقول پاکستانی خفیہ ادارے اور صوبائی حکومتیں بھی اس سلسلے میں چھان بین کے عمل میں شامل ہیں۔ پاکستان کو ایسے افراد کی صحیح تعداد کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی وطن واپسی کی کوششوں کے علاوہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے بھی کوئی طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔

پاکستانی انٹیلیجنس حکام کے مطابق شام جانے والے ان جنگجوؤں میں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ داعش کے حامی سنی عسکریت پسند بھی شامل ہیں اور تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ وطن واپسی پر یہی مذہبی عسکریت پسند ملک میں خونریز فرقہ پرستی کی ایک نئی لہر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔