1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی اور آسٹریا میں دوہری شہریت کے معاملے پر اختلاف

18 اکتوبر 2018

اٹلی اور آسٹریا میں الپائن کے پہاڑی علاقے کے اطالوی صوبے جنوبی تیرول میں بسنے والوں کے لیے دوہری شہریت کے معاملے پر سفارتی کشیدگی عروج پر ہے۔

https://p.dw.com/p/36lwU
Grenzübergang Italien Österreich
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Teyssot

اس علاقے میں بسنے والے افراد کی قومی شناخت اور ان کے آسٹریائی شہریت کے حق کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اٹلی کے سب سے امیر اور خودمختار صوبے میں اتوار کو نئی پارلیمان منتخب کی گئی ہے، جب کہ روم اور ویانا حکومتوں کے درمیان آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کُرس کے اس منصوبے پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، جس میں کُرس نے جنوبی تیرول کے باسیوں کے لیے آسٹریا کی شہریت کی پیش کش کی تھی۔

اٹلی سے مہاجرین جرمنی اسمگل کرنے والا پاکستانی شہری گرفتار

جنوبی ٹیرول کے لیے دوہری شہریت، اٹلی و آسٹریا میں تکرار

اس پیش کش میں اطالوی زبان بولنے والوں شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ دوہری شہریت فقط جرمن (علاقائی طور پر لادن کہلانے والی زبان)  بولنے والے افراد کو آسٹریا کی شہریت دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

گو کہ جنوبی تیرول میں حالیہ انتخابات میں آسٹریا کی شہریت کے معاملے سے زیادہ مہاجرین اور دیگر امور کا سایا رہا، تاہم یہ معاملہ بھی کلیدی نوعیت کا حامل بن چکا ہے۔

دوہری شہریت کی اس پیش کش کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے مضبوط یورپی شناخت کی راہ ہم وار ہو گی اور بڑھتی ہوئی عوامیت پسندی اور انتہائی بازو کی سوچ کا سدباب ہو گا۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ جنوبی تیرول میں تمام افراد کی بجائے صرف جرمن زبان بولنے والوں کو آسٹریا کی شہریت دینے کی تجویز خطے میں موجود تقسیم کو مزید مضبوط کرے گی اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گی۔

دوسری جانب اطالوی حکومت نے آسٹریا کے اس منصوبے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اٹلی کی سلامتی پر حملہ قرار دیا ہے۔

اطالوی وزیرداخلہ ماتیو سالوینی نے اس موضوع پر اپنے ردعمل میں کہا ہے، ’’آپ ہم سے پوچھے بغیر اطالوی شہریوں کے پاسپورٹ کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ دوہری شہریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

ویانا حکومت کو اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے ابھی ایک مربوط روڈ میپ پیش کرنا ہے، تاہم اطالوی برہمی کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ ایسے کوئی بھی اقدام روم حکومت کی مرضی کے بعد ہی اٹھایا جائے گا۔