1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُن ویڈیوز کا کیا ہو گا جو پورن سائٹس کو بیچی گئیں؟

بینش جاوید
19 اگست 2019

پاکستانی شہر راولپنڈی میں گرفتار کیے گئے ایک جوڑے نے لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنا کر انہیں فحش ویب سائٹس کو بیچا۔ ڈی ڈبلیو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اب ان ویڈیوز کا کیا ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3O8Ls
Indien Kaschmir Vergewaltigung und Tod einer Achtjährigen
تصویر: Reuters/

پاکستانی شہر راولپنڈی میں پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک ایسے میاں بیوی کو حراست میں لیا جو لڑکیوں کو اغواء کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے اور اس عمل کی ویڈیو بنا کر فحش ویب سائٹس کو فروخت کرتے۔

پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق یہ شادی شدہ جوڑا بچیوں کو اغوا کرتا تھا۔ ملزم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا جبکہ اس کی اہلیہ اس عمل کی ویڈیو بنایا کرتی تھی۔ ان ویڈیوز کے ذریعے نہ صرف متاثرہ لڑکیوں کو خاموش رہنے کے لیے بلیک میل کیا جاتا بلکہ ان میں سے کئی ویڈیوز کو بین الاقوامی پورن ویب سائٹس کو بھی فروخت کیا گیا۔ اس جوڑے کی حراست ان کی درندگی کا نشانہ بننے والی ایک طالبہ کی شکایت کے بعد عمل میں آئی۔ اس طالبہ کو خاتون نے اس کے تعلیمی ادارے کے باہر سے زبردستی اغوا کیا جس کے بعد اس سے جنسی زیادتی کی گئی اور ویڈیو بنا کر اسے خاموش رہنے کی دھمکی دی گئی۔

پاکستان: انصاف کی متلاشی خواتین

پولیس کے مطابق اس جوڑے نے کم سن بچیوں کو بھی اس ہولناک جرم کا نشانہ بنایا ہے۔ اس جوڑے کی حراست کے بعد اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان ویڈیوز کا کیا ہوگا جو پورن ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ اس بارے میں سائبرسکیورٹی کے ماہر اسامہ خلجی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''حکومت کو  متاثرہ لڑکیوں کی پرائیویسی اور ان کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے ان ویب سائٹس کے ساتھ ان ویڈیوز کو ہٹانے کا معاملہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ ان ویڈیوز کو بناتے وقت متاثرہ بچیوں کی مرضی شامل نہیں تھی۔‘‘

اسامہ مزید کہتے ہیں کہ نہ صرف ان ویب سائٹس بلکہ حکومت کو غیر ملکی حکومتوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے جہاں سے ان ویب سائٹس کو چلایا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس ہولناک جرم میں ملوث جوڑے کو مثالی سزا بھی دی جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ خواتین کو جبری طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیوز دنیا بھر میں کئی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں خواتین ان ویب سائٹس کی وجہ سے استحصال کا شکار ہیں۔