1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہا پسندانہ نظریات کی جنگ: حکومتی اکابرین منتشرالخیال؟

عبدالستار، اسلام آباد
12 نومبر 2018

مدرسہ اصلاحات اور انتہا پسندانہ نظریات سے متعلق پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے مختلف بیانات اور رویوں نے کئی مبصرین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکومت انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے کے حوالے سے منتشرالخیال ہے۔

https://p.dw.com/p/387Pw
تصویر: DW/F. Khan

حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نظریات کی جنگ میں علماء اور معاشرے سے مدد مانگی تھی لیکن کئی مبصرین کے خیال میں ایک طرف پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس جنگ میں مدد مانگتے ہیں تو دوسری طرف اس کے اپنے ہی رہنما ایسے مذہبی رہنماؤں کے تعریف کرتے نظر آتے ہیں، جن پر انتہا پسندانہ خیالات پھیلانے کا الزام ہے۔

ماہرین کے خیال میں ملک میں انتہا پسندانہ نظریات کا اس وقت مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ مدارس کا نصاب تبدیل نہ کیا جائے۔ لیکن ان کے خیال میں کوئی بھی حکومت پچھلے اٹھارہ برسوں میں یہ کام نہیں کر سکی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں خود پی ٹی آئی میں بھی مذہبی رہنماؤں کی تقلید کرنے والے عقیدت مند موجود ہیں، اس لیے مدرسہ اصلاحات یا انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف جنگ آسان نہیں۔

Pakistan Madrassas in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک طرف فواد چوہدری اس جنگ میں مدد مانگتے ہیں تو دوسری طرف شہریار آفریدی تبلیغی جماعت کے رہنماؤں سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کئی ماہرین کے خیال میں اس جماعت نے بڑے نرم انداز میں انتہا پسندانہ خیالات کی ترویج کی ہے۔ میوزک، خواتین کے حقوق اور آرٹس کے خلاف فکری کام اس جماعت نے کیا، جس کو نافذ کرنے کے لیے طالبان نے بعد میں طاقت استعمال کی۔ اس کے علاوہ حکومت کے اپنے لوگ اس حوالے سے منتشرالخیال ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ مدرسہ اصلاحات ہوں گی، جس کا مطلب مدارس کے نصاب میں تبدیلی بھی ہے۔ لیکن اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں تبدیلی توکیا، یہ اسکولوں میں بھی مولویوں والی سوچ لے آئیں گے۔‘‘

کچھ ماہرین کے خیال میں اصلاحات کی کوششوں کی ناکامی کی ایک وجہ بیرونی دباؤ بھی ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں سعودی امداد سے چلنے والے مدارس نے ملک میں قدامت پرست نظریات اور انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دیا ہے اور اگر پاکستان اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے مدارس کا نصاب تبدیل کرتا ہے، تو ریاض کی طرف سے سخت مزاحمت ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کے خیال میں حکومت کے رویے سے نہیں لگتا کہ وہ مدرسہ اصلاحات کرے گی یا انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا، ’’پی ٹی آئی خود ایک دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس میں بھی کئی افراد انتہا پسندانہ سوچ کے قریب پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے لبیک جیسے چھوٹے گروپ کے سامنے ہتھیار ڈالے، تو یہ مدارس کے خلاف کوئی کام یا ان کے نصاب میں کوئی تبدیلی کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس ہیں، جن میں لاکھوں طلبا پڑھتے ہیں۔ وہ سب حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں گے اور یہ حکومت برداشت نہیں کر پائے گی۔ اس کے علاوہ اسے ایوان میں اتنی بڑی اکثریت بھی حاصل نہیں کہ یہ کوئی نیا قانون بنا کر مدارس کے نصاب کو تبدیل کرے۔ سعودی عرب کی خوشنودی بھی حکومت کی ترجیحات میں اہم ہے اور ریاض کبھی بھی نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے دے گا۔‘‘

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ مدارس کے مذہبی نصاب کو تبدیل یا ختم نہیں کر رہی بلکہ وہ اس میں دنیاوی علوم کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے رہنما اسحاق خان خاکوانی کے خیال میں پارٹی کو اس حوالے سے کوئی اندرونی یا بیرونی دباؤ خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ’’مذہبی تعلیم حاصل کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن آپ مدرسے میں پڑھنے کے بعد ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، مؤرخ یا کچھ اور تو بن نہیں سکتے۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طالب علم بھی ریاضی، سائنس، تاریخ، جغرافیہ، طبیعیات اور دیگر علوم پڑھیں تاکہ ان کی تعلیم بھی کارآمد ہو سکے۔ ہم یہ اصلاحات کریں گے اور چاہے سعودی عرب ہو یا کوئی اور ملک، ہمیں ان اصلاحات کے حوالے سے کوئی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں