1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابی نشانات کی سیاست: ووٹر حیران، امیدوار پریشان

20 جون 2018

فرض کیجئے آپ پاکستان میں کسی ایسی سیاسی جماعت کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہوں، جس کا انتخابی نشان چمچہ ہو تو شاید آپ اس بات کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ آپ کی انتخابی مہم لوگوں کو تفریح کا کیسا کیسا سامان مہیا کرے گی۔

https://p.dw.com/p/2zuAp
Screenshot Pakistan General Election Symbols 2018
تصویر: Government of Pakistan

اگر آپ کا نام خالد ہے اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر آپ کو پلگ کا نشان الاٹ ہوا ہے تو اس بات کے امکانات کافی زیادہ ہیں کہ آپ کو اس الیکشن کے بعد خالد پلگ کے نام سے ہی لکھا اور پکارا جائے۔ اسی طرح اگر کسی امیدوار کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈرل مشین، نیل کٹر، گدھا گاڑی یا جوتے کا انتخابی نشان مل جائے تو اس امیدوار کے ساتھ پاکستان کا جگت پسند معاشرہ اور سوشل میڈیا کیا سلوک کرے گا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا بقراط ہونا ضروری نہیں۔

آپ کے لیے یہ بات شاید حیرت کا باعث ہو کہ امن کے بیانیے کو فروغ دینے والے پاکستان کے انتخابی نشانات میں بندوق اور ہتھوڑا بھی شامل ہے۔ انتخابی نشانات کی فہرست میں لیپ ٹاپ، موبائل فون اور موبائل چارجر جیسی جدید اشیاء بھی شامل کی گئی ہیں لیکن آڈیو کیسٹ اب بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں موجود ہے حالانکہ پاکستان میں آڈیو ٹیپ کو متروک ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں۔

شہری آبادیوں کے بہت سارے نوجوان ووٹروں نے ممکن ہے کہ کنواں کبھی دیکھا بھی نہ ہو لیکن یہ بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے شکار اس ملک میں انتخابی نشانات کی فہرست میں جنریٹر، ایمرجینسی لائٹ، لالٹین، سورج اور گیس سیلنڈر بھی شامل ہیں۔

 

پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی میں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا عمل بہت آسان تھا اور اس لیے بہت سے غیر سنجیدہ افراد نے اپنی نام نہاد سیاسی جماعتوں کو رجسٹرڈ کروا لیا،’’اس لیے الیکشن کمیشن کو ادھر ادھر سےانتخابی نشانات پورے کرنا پڑے۔‘‘ ان کے بقول انتخابی نشانات کی افادیت یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ ووٹرز بھی ان نشانات کی مدد سے اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر فار کلینیکل سائیکالوجی کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ داؤد خان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ نہیں کہ ووٹر اپنے امیدوار کو پہچان سکے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ووٹرکو شعور اور تعلیم دی جائے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ملکی بہتری کے لیے اپنے ووٹ کا بہترین استعمال کر سکے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صائمہ کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی نشانات کو مزید بہتر اور موثر بنانے اور انہیں پاکستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرے اور اس ضمن میں اگر ضرورت ہو تو ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔

انتخابی نشانات مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام (ذوالفقار) کی مناسبت سے انتخابی نشان تلوار کا انتخاب کیا۔ ان کے جلسوں میں مقررین اس تلوار کا تعلق اسلامی تاریخ سے جوڑتے رہے اور ایک خاص فرقے میں مقبولیت کے حصول کے لیے یہ تکنیک بہت موثر ثابت ہوئی۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی نشان کتاب کو کتاب مقدس سے جوڑ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  اسی طرح مسلم لیگ نون کے امیدوار شیر کے انتخابی نشان کو بہادری، دلیری اور جوانمردی کے جذبات کا استعارہ بنا کر پنجاب کے طاقت پسند عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل میں موجود کرکٹ کے جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اور بطور کرکٹر  عمران خان کی عظیم کارکردگی کو ان کے سیاسی کیریئر سے جوڑنے کے لیے تحریک انصاف بلے کے انتخابی نشان کو لے کر میدان میں اتر رہی ہے۔  

Pakistan Wahlen Dossier - Bild 3
تصویر: AP

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں انتخابی نشانات کے حصول کی کوششیں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بنی رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف دنیا میں انصاف کی علامت ترازو کو جماعت اسلامی سے ہتھیانے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق رہنما ناہید خان کی قیادت میں الگ ہونے والا پارٹی کا ایک حصہ تلوار اور پی ٹی آئی کی الگ ہو جانے والی رہنما عائشہ گلا لئی بلے کا نشان حاصل کرنے کے لیے ابھی تک کوشیں کر رہی ہیں۔

بلے سے پٹائی، تیروں کی بوچھاڑ اور شیروں کی چیر پھاڑ جیسے جملوں سمیت یہ انتخابی نشان دوسروں پر تنقید اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔

جس طرح اچھا انتخابی نشان کامیابی کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے اسی طرح ایک برا انتخابی نشان امیدواروں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ سائیکل کے نشان پر ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۳ کے انتخابات میں شکست کھانے والی مسلم لیگ قاف نے سائیکل کے پنکچر ہونے کے طعنوں سے تنگ آ کر اس مرتبہ ٹریکٹر کا انتخابی نشان حاصل کیا ہے۔ یاد رہے پچھلے بلدیاتی انتخابات میں سوات میں مرغی کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے والے ایک امیدوار کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے ووٹ مانگتے ہوئے تو انہیں ووٹرز کی طرف سے یہی جواب ملتا ’’ لالہ مرغی کھلائو گے تو مرغی پر مہر لگائیں گے‘‘

سیاسی تجزیہ نگار رؤف طاہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ کہنا تو درست نہیں ہے کہ انتخابی نشانات کی معنویت کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن بعض اوقات مقبول قیادت اور مقبول پارٹی کے سامنے انتخابی نشانات کی اہمیت زیادہ نہیں رہتی۔ ان کے مطابق حال ہی میں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے بعد عدالت نے مسلم لیگ نون کے امیدواروں کو شیر کا نشان استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا تو ان حالات میں بھی مسلم لیگ نون کا امیدوار بھلوال سے پک اپ کے انتخابی نشان کے ساتھ بھی جیت گیا۔ ماضی میں طاقتور لوگوں نے جب بھی کسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنا چاہا تو اس نے اس سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے بھی محروم کرنے کی کوشش بھی کی۔

Wahlen in Pakistan Junge mit Hund
تصویر: AP

اپنے مخالف امیدوار کے ووٹ کم کرنے کا ایک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ اس کے خلاف ایک گمنام امیدوار اس کے انتخابی نشان سے ملتے جلتے انتخابی نشان کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا رہا ہے، جیسے بے نظیر دور میں کئی امیدواروں کو پینسل کا انتخابی نشان دیا گیا جو کہ تیر سے ملتا جلتا تھا، اسی طرح مسلم لیگ نون کے بعض سادہ لوح ووٹرز بھی بلی اور گائے کو شیر سمجھ کر اس پر ٹھپے لگاتے رہے۔ بعدازاں مماثلت رکھنے والے ایسے کئی نشانات کو ختم کر دیا گیا۔  

انتخابی نشانات کو بعض اوقات مذموم سیاسی مقاصد کے لی بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مستقبل کی حکومت سازی پر اثر انداز ہونے کے خواہاں طاقتور حلقے بھی پاکستان بھر میں الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں کو ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑواتے رہے ہیں۔ اس طرح ان کے حمایتیوں کوآسانی سے پتہ چل جاتا کہ کہاں کہاں کس کس کا خیال رکھنا ہے۔

انتخابی نشانات کی اس سیاست کے باوجود پاکستان میں پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام بڑی جماعتوں کو انتخابی نشانات الاٹ کیے جا چکے ہیں۔ ان انتخابی نشانات کو ذہن میں رکھ کر انتخابی ترانے اور نعرے تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے سیاسی جماعتوں سے بچ رہنے والے انتخابی نشانات، پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر، ریٹرننگ افسروں کے ذریعے آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں گے۔ اس الیکشن کے لیے پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے تین سو تیس کے لگ بھگ انتخابی نشانات کی ایک فہرست پہلے ہی تیار کی جا چکی ہے۔ یہ انتخابی نشان کس کس کو نشان منزل تک پہنچائیں گے اور کس کس کا نام و نشان پاکستانی سیاست سے مٹانے میں مدد گار ثابت ہوں گے، یہ سب سامنے آنے میں تھوڑی ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید