1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابی سرگرمیوں کا عکس سوشل میڈیا میں

9 اپریل 2013

پاکستان میں ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹر اس سال 11 مئی کے عام انتخابات میں ایک ہزار کے لگ بھگ قومی اور صوبائی نمائندے چنیں گے۔ انتخابی سرگرمیوں میں تیزی کا عکس سوشل میڈیا میں بھی نظر آ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/18CA3
تصویر: imago/Schöning

فیس بک اور ٹوٹر وغیرہ پر امیدواروں کے بیانات، تعریفی اور تنقیدی مضامین اور خبریں اور تصویریں رات دن سجتے ہیں۔ تاہم ماہین پراچہ سماجی ابلاغ کے ان ذرائع کے سیاسی فائدے کی زیادہ قائل نہیں:’’میرے ملازم تو ٹویٹ دیکھ کر ووٹ نہیں دیں گے نا‘‘، ایسا کہنا ہے ماہین کا۔

مگر ماہین تو اب معلومات کے لیے براہ راست اخبار ہی پر انحصار کرتی ہیں، پرنٹ ہو یا آن لائن۔ ’’دوسروں کی پسند کی باتیں، خبریں یا مضامین کب تک ؟‘‘، وہ کہتی ہیں۔ پاکستان کے ایک اشاعتی ادارے سے منسلک 35 سالہ ماہین لگ بھگ پانچ سال سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں۔

مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا کی جانب راغب ہونے کی بنیادی وجہ تحریک انصاف بنی ہے
مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا کی جانب راغب ہونے کی بنیادی وجہ تحریک انصاف بنی ہےتصویر: Getty Images

2007ء میں جب فوجی حکمران پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو سوشل میڈیا ماہین کی طرح بہت سے نوجوانوں کے لیے سیاسی خیالات کے اظہار اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف احتجاج کا ذریعہ بنا۔

تب تو سوشل میڈیا ملک میں نیا نیا متعارف ہوا تھا۔ تجزیاتی کمپنی سوشل بیکرز کے مطابق اس وقت پاکستان میں سماجی ذرائع ابلاغ میں مقبول ترین فیس بک ہے۔ اِس کے80 لاکھ سے زائد صارفین میں نصف 18 سے24 سال اور ایک چوتھائی 25 سے 34 برس کی عمر کے ہیں۔ ٹوٹر 19 لاکھ جبکہ لنکڈان 12 لاکھ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ اسی کمپنی کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے (سات فی صد سالانہ) اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم احمد صابر کی طرح بہت سے نوجوان اسے صرف خوش گپیوں ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ موبائل سے تصویریں بناتے ہیں، دوستوں کے ساتھ شیئرکرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تصویروں پر تبصرہ کرتے ہیں۔’’اور کیا کریں؟ مزہ آتا ہے‘‘، احمد جھینپتے ہوئے کہتے ہیں۔

ووٹ کی عمر سے دور اس 15 سالہ طالب علم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال شاید یہیں تک محدود ہے۔ مگر بہت سے لوگوں کی نظر میں سوشل میڈیاکی طاقت بے پایاں ہے۔ اس طاقت کا اظہار منفی بھی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے بھی اپنی موجودگی منوائی ہے
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے بھی اپنی موجودگی منوائی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ایک بینکر وقاص اقبال کے مطابق ہمیں ابھی تک دوسروں کی رائے کا احترام کرنا نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے ملک کے سیاسی میدان میں عدم برداشت کے پھیلاؤ میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ادھرکسی صحافی یا ٹیلی وژن اینکر نے کچھ ایسی بات کہہ دی، جوکسی جماعت کو ناگوار گزری اور ادھر دھمکیوں اور بدزبانی کا بازار گرم۔

دوسری جانب آن لائن پبلشنگ کی گریجویٹ بشریٰ سلطانہ کے مطابق دیگر ذرائع ابلاغ اور سیاسی جلسوں کی نسبت سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ بہتر طور پر اپنے سیاست دان سے براہ راست بات چیت کر لیتے ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس کا ماننا ہے کہ لوگوں نے روزمرہ سیاست میں پھر سے دل چسپی لینا شروع کر دی ہے اور سماجی رابطے کے نئے ذرائع اور آلات سے ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ کون سی جماعت اور کون سے امیدوار ان کی حمایت کے اہل ہیں۔

شاید یہ اسی حقیقت کا ادراک ہے کہ بہت سے سیاست دان ٹوٹر کا استعمال کر رہے ہیں۔2009ء سے ٹوٹرکے صارف اور ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما خرم دستگیرخان معترف ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا کی جانب آنے کا باعث پاکستان تحریک انصاف ہے۔

بشریٰ سلطانہ کہتی ہیں کہ عمران خان کی جماعت نے تو سوشل میڈیا کی اہمیت کو جلد سمجھ لیا تھا اور وہ اب اسے مہارت سے استعمال کر رہی ہے مگر سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (نواز)، چودھری شجاعت حسین کی پاکستان مسلم لیگ، اسفند یار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی اور الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی پچھلے کچھ عرصے میں اس میدان میں اپنی موجودگی منوائی ہے۔

مگرکیا سوشل میڈیا پر پذیرائی عام انتخابات میں کامیابی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے؟

سوشل میڈیا کے استعمال میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی پیچھے نہیں رہی اور یہ جماعت بھی فیس بُک وغیرہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں تک رسائی کی کوششیں کر رہی ہے
سوشل میڈیا کے استعمال میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی پیچھے نہیں رہی اور یہ جماعت بھی فیس بُک وغیرہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں تک رسائی کی کوششیں کر رہی ہےتصویر: dapd

مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیتِ علمائے اسلام کے رہنما ریاض دُرّانی کا جواب تو نفی میں ہے۔ دُرّانی، جن کا دعویٰ ہے کہ اپنی جماعت کی ویب سائٹ اُنہوں نے بنوائی تھی، کہتے ہیں:’’یہ ہمارا 31 مارچ کا لاہور میں ہونے والا جلسہ ہی دیکھ لیں، کتنا کامیاب رہا۔ اور اس کے لیے ہمیں سوشل میڈیا کی ضرورت نہیں پڑی۔ ایسے ہی ہم ووٹ بھی لے لیتے ہیں۔ ہمارا کام ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔‘‘ اُن کا اشارہ خیبر پختون خوا میں متحدہ مجلسِ عمل کی 2002ء کی حکومت میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کی جانب ہے۔ جمعیتِ علمائے اسلام اُس وقت مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کی اہم رُکن تھی۔

صحافی مہمل سرفراز کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں تک پہنچنے کا کامیاب ذریعہ رہا ہے:’’ووٹ رجسٹر کروانے کی مہم میں بھی سوشل میڈیا کا کردار اہم تھا۔ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان میں بہت سے سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔ مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں اور سیاست دانوں سے سوالات بھی کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔‘‘ مہمل کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا شہری پاکستان میں تو کسی طور اہم ہے، دیہی پاکستان میں نہیں۔ یوں سیاست اس ذریعے سے اس لیے متاثر نہیں ہو گی کہ ووٹروں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جو ٹوِٹر یا فیس بُک استعمال نہیں کرتی۔

تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی بھی اس رائے سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’سوشل میڈیا کا اثر محدود ہے۔ یہ انتخابی مہم یا پراپیگنڈے کا ایک اضافی آلہ تو ہو سکتا ہے مگر ابھی یہ فیصلہ کُن تبدیلی نہیں لا سکتا۔‘‘

تحریر: وقار مصطفےٰ، لاہور

ادارت: امجد علی