1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج کو غیر معمولی اختیارات نہیں دیے جا رہے، فافن

بینش جاوید
16 جولائی 2018

پاکستان میں انتخابی عمل کا جائزہ اور بطور مبصر کام کرنے والی تنظیم ’فافن‘ کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں فوج کو کوئی ایسا اختیار نہیں دیا گیا، جو پہلے نہ دیا جا چکا ہو۔

https://p.dw.com/p/31XgS
Pakistan Khyber Anschlag auf christliche Siedlung
تصویر: Reuters/F. Aziz

گزشتہ انتخابات کی نسبت اس مرتبہ پاکستان میں ووٹنگ اسٹیشنز اور ووٹرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس مرتبہ 86 ہزار پولنگ اسٹیشز میں لگ بھگ 105 ملین ووٹرز اپنا حق رائے دہی  استعمال کریں گے۔ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے اس مرتبہ انتخابات میں نہ صرف ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلکہ دیگر سرکاری اداروں کے افسران کی خدمات بھی لی جائیں گی۔ سرکاری افسران کے علاوہ لگ بھگ پونے چار لاکھ فوجی تعینات کیے جائیں گے۔

فوج کی اتنی بڑی تعیناتی پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی اور کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ فوج انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فافن کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی نے بتایا،''جو ذمہ داریاں فوج کو ان انتخابات میں دی گئی ہیں وہ الیکشن کمیشن پہلے سے دیتا آرہا ہے۔ تین سال پہلے الیکشن کمیشن نے کراچی کے حلقہ این اے دو سو چھیالیس میں ضمنی انتخابات کرائے تھے۔ تب سیاسی جماعتوں کی خواہش پر فوج کو عدالتی اختیارات دیے گئے تھے۔ ‘‘ رضوی نے بتایا کہ اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن نے فوج کو مجسٹریٹ کی طاقت دی ہے۔ اس کے علاوہ  فوجی پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر تعینات ہوں گے اور ان کا اصل مقصد سکیورٹی فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔

لوگ جسے چاہیں ووٹ دیں، پاکستانی فوج

کچھ روز قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ فوج انتخابی نتائج کی ترسیل کی ذمہ دار نہیں ہو گی،’’انتخابات کے نتائج  کی ذمہ داری پریذائیڈنگ افسر کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق فوج انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کر سکتی۔‘‘

 2002ء،  2008ء اور پھر 2013ء کے انتخابات میں بھی فوج تعینات کی گئی تھی لیکن انہیں حلقوں میں کسی امن و امان کی بگڑتی صورتحال سے نمٹنے کے لیے الرٹ رکھا گیا تھا۔ اس مرتبہ فوج تمام 86 ہزار پولنگ اسٹیشنز پر تعینات ہو گی۔ فوج کی انتخابی عمل میں شمولیت اور انتخابات سے قبل سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت سے متعلق کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کے حوالے سے مدثر رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 55 کے سب سیکشن تین کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے شخص کے خلاف الیکشن کمیشن کو شکایت کر سکتی ہے جس پر انتخابی عمل میں مداخلت کرنے کا شک ہو۔ اور جرم ثانت ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن اس شخص کو معطل کر سکتا ہے لیکن ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے ایسی کوئی شکایت الیکشن کمیشن کو درج نہیں کرائی۔‘‘

پاکستان میں فوج اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی، مائیکل کوگلمین

رضوی نے بتایا کہ جب کسی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ تیار ہو جائے گا تو پریذائیڈنگ افسر موبائل ایپ کے ذریعے نتائج کو الیکشن کمیشن اور ریٹرنگ افسر کو بھیجے گا۔ فوج اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پریذائیڈنگ افسر یہ نتائج پولنگ اسٹیشن سے ہی ریٹرنگ افسر کو بھیجے۔ اس کے علاوہ  اب پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشن کے نتائج جو فارم 45 اور 46 میں درج ہوتے ہیں کی رسائی ملے گی۔ پولنگ اسٹیشن پر تعینات فوجی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو یہ فارم مہیا کیے جائیں۔

رضوی کے مطابق مجموعی طور پر پاکستانی فوج کو کوئی غیر معمولی اختیارات نہیں دیے گئے اور اگر یہ انتخابات قائدے اور قانون کے مطابق ہو گئے تو یہ الیکشن کمیشن کی کامیابی ہوگی۔ فافن بھی ان انتخابات میں لگ بھگ دس ہزار مبصرین کو ملک بھر میں تعینات کر رہا ہے۔