1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، کہانياں بہت مگر دکھانے والوں کی قدر نہیں

عاصم سلیم
10 دسمبر 2020

اپنی تاريخ اور متنوع ثقافت کی بدولت پاکستان ايک ايسا ملک ہے، جہاں کہانيوں کی تو بھرمار ہے مگر کہانی سنانے والوں يا حقيقت پر مبنی فلميں بنانے والوں کی کوئی قدر نہيں۔ پاکستان ميں فلم سازی کی صنعت کا ايک مختصر جائزہ۔

https://p.dw.com/p/3mXRL
Pakistan Filmemacher
تصویر: Aasim Saleem/DW

عمر نفيس شام کے وقت اکثر  پرانے لاہور ميں ايک مناسب مقام تلاش کر کے چائے کا ايک کپ پی ليتے ہيں تاکہ زندگی کے تمام رنگوں سے لطف اندوز ہو سکے۔ شہر کے اس حصے کو اگر ملک ميں ثقافت کا مرکز کہا جائے، تو شايد غلط نہ ہو گا۔ ايک وقت مغل دور کا صدر مقام شہر لاہور آج کافی بدل چکا ہے مگر شہر کا پرانا حصہ آج بھی گزری شان و شوکت کی ياد دلاتا ہے۔ عمر نے اپنا بچپن اسی علاقے ميں گزارا، کہانيوں اور کہانياں سنانے والوں ميں۔ اسی ليے يہ کوئی تعجب کی بات نہيں کہ فلم ساز عمر نفيس کی اکثريتی فلميں اسی علاقے يا يہاں کی کہانيوں پر مبنی ہوتی ہيں۔

عمر نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''شہر کے اس حصے ميں ہر شخص، ہر سڑک، ہر موڑ ايک کہانی ہے، کسی فلمساز کو اس سے زيادہ اور کيا چاہيے۔‘‘ عمر لاہور کے معروف نيشنل کالج آف آرٹس کا گريجوٹيٹ ہے اور اس کا شمار پاکستان کے نوجوان ابھرتے ہوئے فلمسازوں ميں ہوتا ہے۔ عمر دستاويزی فلميں بناتا ہے۔ يہ ايک ايسا ميدان ہے جس کی طرف حاليہ برسوں ميں کئی نوجوانوں نے رخ کيا مگر کسی نہ کسی وجہ سے فلمسازی کی يہ شاخ ملک ميں وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی توقعات تھيں۔

Lahore Pakistan Panorama Altstadt Moschee
تصویر: Getty Images

پاکستان ميں دستاويزی فلموں کی کوئی مارکيٹ نہيں

پاکستان ميں ڈاکومينٹری فلم سازوں کے ليے سب سے بڑی کاميابی سن 2012 ميں اس وقت آئی، جب شرمين عبيد چنوئے آسکر ايوارڈ کی حقدار قرار پائيں۔ اس کے بعد توقع تھی کہ ايسی کاوشيں فروغ پائيں گی مگر يہ نہ ہو سکا۔ پچھلی دو دہائيوں ميں پاکستان ميں ٹيلی وژن اور اخبارات ميں اشتہارات ميں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، کمرشل فلسازی کی صنعت نے بھی خاصا فروغ پايا مگر دستاويزی فلموں کی صنعت اس سے مستفيد نہ ہو سکی۔

اسلام آباد کے فلم ساز اور يو ٹيوبر عبدالباسط نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''حقيقت پر مبنی مواد يا دستاويزی فلموں کی پاکستان ميں کوئی مارکيٹ نہيں۔ يہاں صرف ٹيلی وژن کمرشل، ڈرامہ سيريل، ٹيلی فلم وغيرہ چلتی ہيں۔‘‘

فلم ساز عمر نفيس اپنی ٹيم کے ہمراہ
فلم ساز عمر نفيس اپنی ٹيم کے ہمراہتصویر: Aasim Saleem/DW

کراچی ميں مقيم فلم ساز احمر سليم کے خيالات بھی کچھ ايسے ہی ہيں۔ ''ہوتا يہ ہے کہ سالہا سال لگا کر فلم سازی پڑھتے ہيں اور خواب ديکھتے ہيں کہ ايک دن آپ بڑی بڑی کہانياں منظر عام پر لائيں گے۔ مگر حقيقت ذرا مختلف ہے۔‘‘ سليم نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ گريجويشن کے ايک سال بعد ہی اس نے دستاويزی فلم سازی چھوڑ کر کمرشل فلمیں  بنانے والی ايک ايجنسی کھول لی تھی کيونکہ مالی اعتبار سے يوں ہی گزارا ممکن تھا۔

پاکستان کے نامور براڈکاسٹر عمران شيروانی کا اس بارے کہنا ہے کہ پاکستان ميں دستاويزی فلميں دکھانے کے ليے مواقع نہ ہونے کے برابر ہيں، ''ٹيلی وژن دستاويزی فلموں کے ليے مناسب پليٹ فارم نہيں۔ ايسا اس صورت ہی ممکن ہے جب دستاويزی فلموں کو سلسلہ وار انداز ميں پيش کيا جائے، جو شايد نجی چينلز کو کافی مہنگا پڑے گا۔‘‘

Oscar-Verleihung 2012 Saving Face
تصویر: Reuters

کمرشل سنیما کے مختلف ادوار

دوسری جانب پاکستان ميں کمرشل فلم سازی کی صنعت مختلف ادوار سے گزری ہے۔ فلم ساز مشتاق غزدار نے اپنی کتاب 'پاکستان سنیما 1947ء سے 1997ء تک‘ ميں آزادی کے بعد سے تمام دہائيوں کا جائزہ ليا۔ ابتدائی دہائی کے بعد سن 1957 سے سن 1967 تک کے عرصے کو فلمی صنعت کے ليے 'تبديلی‘ کا عرصہ قرار ديا جاتا ہے، جبکہ اس سے اگلی دہائی کے دوران فلموں کا معيار خراب ہوتا گیا۔ پھر سن 1987 سے سن 1997 تک کا عرصہ جمہوريت کی واپسی کے ساتھ فلمی صنعت کے ليے بھی اچھا ثابت ہوا۔

’ميری پاک سر زمين‘ کی آسکر کے ليے نامزدگی

پاکستانی فلمساز شرمین عبید نے دوسرا آسکر ایوارڈ جیت لیا

ساتھ ہی سن 1990 کی دہائی ميں کيبل نيٹ ورک کے پھيلاؤ کے ساتھ ملک ميں بھارتی انٹرٹينمنٹ مواد کی مانگ بہت زيادہ بڑھی۔ نئی صدی کے آغاز پر پاکستان ميں اليکٹرانک ميڈيا کو وسعت دينے کی پاليسی اپنائی گئی۔ اچانک ہر طرف ٹی وی چينلز  کی بھرمار ہوئی اور ساتھ ہی کئی فلم اسکول بھی کھلے۔ اس دوران چند فلميں ضرور مشہور ہوئيں، مثال کے طور پر سن 2007 ميں شعيب منصور کی فلم خدا کے ليے، مگر  مجموعی صورتحال زيادہ خاص نہ رہی۔

گزشتہ دہائی البتہ کمرشل فملوں کی دہائی ثابت ہوئی۔ کئی ٹيلی فلميں اور ٹيلی وژن چينلز کی تيار کردہ فلميں نمائش کے ليے پيش کی گئيں اور ان کی ملک اور بيرون ملک ميں شہرت قابل تعريف رہی۔ تاہم يہ تمام تر کاميابی زيادہ تر کمرشل فلموں کے حصے ميں آئی۔

فلم ساز اور ڈيجيٹل دور

پچھلے چند برسوں ميں نہ صرف پاکستان بلکہ دنيا بھر ميں سوشل ميڈيا تيزی سے ابھرا۔ عمر نفيس ايک طريقے سے اسے منفی مانتے ہيں، ''مسئلہ يہ ہے کہ اب ويڈيو کے کامياب يا ناکام ہونے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اسے کتنی مرتبہ ديکھا گيا يا اسے کتنے کلکس ملے۔ جو لو گ سالہا سال محنت کر کے فلسازی سيکھتے ہيں، انہيں اسی صف ميں کھڑا کر ديا جاتا ہے جنہيں تکنيک کا کچھ نہيں پتا مگر وہ کامياب اس ليے ہيں کيونکہ ان کا کوئی کلپ چل گيا۔‘‘

دوسری جانب عبدالباسط کا نظريہ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہيں کہ اگر فلم فیسٹیولز کی کمی ہے، تو ڈيجيٹل پليٹ فارمز فلم سازوں کے ليے بہترين موقع ہيں۔ ليکن عبدالباسط کا يہ بھی کہنا ہے کہ يہ عمل پيچيدہ ہے،''سنسرشپ، حکومتی کنٹرول، غير واضح اور بدلتی ہوئی پاليسياں اور ماضی ميں يو ٹيوب پر پابندی اس کی راہ ميں رکاوٹيں ہيں۔‘‘

نيٹ فلکس جيسے پليٹ فارمز نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام ملکوں ميں نوجوان با صلاحيت پروڈيوسرز کے ليے موقع فراہم کرتے ہيں تاکہ وہ اپنی کاوشوں کو منافع بخش بنا سکيں۔ پڑوسی ملک بھارت کے کئی فيچر فلمیں اب نيٹ فلکس کا حصہ ہيں اور گو کہ پاکستان کی بھی چند پروڈکشنز اس ويڈيو اسٹريمنگ پليٹ فارم پر ہيں، مگر اس سے کہيں زيادہ کی گنجائش ابھی موجود ہے۔

جمہوری حکومت میں آمرانہ طرز کی سینسرشپ