1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا مذاکرات پر زور، نئی دہلی اور اسلام آباد سنیں گے؟

عبدالستار، اسلام آباد
1 مارچ 2018

امریکا نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات کا آغاز کریں۔ سوال یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح یہ دونوں جنوبی ایشیائی ممالک عالمی سپر پاور کی اس تجویز کو سنجیدگی سے لیں گے بھی یا نہیں؟

https://p.dw.com/p/2tXHz
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں رہنے والوں کا خیال ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ان ممکنہ مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی ایک فریق کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ نئی دہلی اور اسلام آباد میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔
اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر سیلم بٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں بحیثیت کشمیری سیاست دان اس تجویز کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن دونوں ممالک کے درمیان کوئی بھی مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کشمیریوں کو بھی ان مذاکرات میں ایک فریق کے طور پر نہ لیا جائے۔ دونوں ممالک کشمیر پر بات چیت کر سکتے ہیں لیکن اس بات چیت کوکوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی اگر کشمیریوں کا اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘‘

’بھارت اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائل خریدے گا‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ان مذاکرات کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جس میں ایک بڑی رکاوٹ بی جے پی کی پاکستان دشمن انتخابی سیاست ہے۔ پاکستان میں اب بھارت دشمنی پر انتخابی سیاست نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہ مسئلہ انتخابات کے دوران اٹھایا جاتا ہے لیکن بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعتیں پاکستان دشمنی کو انتخابات میں ایک نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ تو میرے خیال میں ان کی طرف سے اس مسئلہ کو انتخابی سیاست کی نذر کرنے کی وجہ سے بھی مذاکرات کی راہ ہموار نہیں ہو پاتی۔‘‘
سلیم بٹ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے ایل او سی پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نوٹس نہیں لیا اور مداخلت نہیں کی تو خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

Kombo - Ajit Doval und Naseer Janjua
پاکستان اور بھارت کے مابین بیک ڈور ڈپلومیسی بھی جاری ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot/D. Haitao, Getty Images/AFP/B. Khan

کنٹرول لائن پر تازہ جھڑپ، سینکڑوں افراد نقل مکانی کر گئے
معروف تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کا راستہ اپنائے، ’’بین الاقوامی برادری کا پاکستان پر بہت دباو ہے۔ ایسا دباو بھارت پر نہیں ہے۔ اس کی معیشت بہتر انداز میں ترقی کر رہی ہے اور اس لئے نئی دہلی کو کسی دباو کی فکر بھی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر بھی بھارت کی خارجہ پالیسی نسبتا آزادانہ رہی ہے۔ نئی دہلی کے ایران سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور تہران کے حریف امریکا سے بھی اس کے اچھے مراسم ہیں۔ میرے خیال میں اگر پاکستان بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک راہ داری کی سہولت دے تو نئی دہلی یقیناً مذاکرات پر راضی ہو جائے گا۔ اسلام آباد کی طرف سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ مذاکرات کے موڈ میں ہے۔ تاہم اگر کشمیری رہنما پاکستان پر دباو ڈالیں تو اسلام آباد مذاکرات کے لئے آگے بڑھ سکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان ایل او سی کو مستقل سرحد تسلیم کر لے، ’’نئی دہلی یہ بھی چاہے گا کہ پاکستان جہادی تنظیموں کی سر پرستی بند کرے لیکن ظاہر ہے اگر پاکستان نے ایل او سی کو مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا تو پھر ہمیں اس بات کی ضرور ت ہی نہیں رہے گی کہ ہم ایسی تنظیموں کی حمایت کریں۔‘‘
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں دونوں ممالک اس تجویز کو سنجیدگی سے لیں گے،’’بھارت نے امریکا سے بہت سے اسٹریٹیجک معاہدے کئے ہوئے ہیں، جس سے اس کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں، تو وہ امریکا کی اس تجویز کو سنجیدگی سے لے گا۔ پاکستان کے لئے بھی یہ خوش آئند بات ہے کہ امریکا نے ایسی تجویز دی ہے کیونکہ اسلام آباد کی تو ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ امریکا یا کوئی تھرڈ پارٹی دونوں ممالک کے درمیان تنازعات حل کرائے، جس میں سرِ فہرست کشمیر کا مسئلہ ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے تو نئی دہلی کو اصرار ہوگا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بات ہو جب کہ پاکستان کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے پر زور دے گا۔ دونوں اپنے موقف پر جمے رہیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کوئی غیر جانبدار تیسری پارٹی اس میں فریق بنے۔ جب کہیں جا کر مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی اور اس کی کامیابی کے کوئی امکانات پیدا ہوں گے۔‘‘