1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امارات ایئر لائن اور پاکستان کا نام ’جدا نہیں‘ ہو سکتا

25 دسمبر 2019

امارات ایئر لائن کے صدر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ٹِم کلارک اس ٹیم میں شامل تھے، جس نے پی آئی اے کے طیارے لیز پر لیے اور پاکستان کے تعاون سے امارات ایئر لائن کی بنیاد رکھی تھی۔ آج امارات دنیا کی سب سے بڑی ایئرلائن بن چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/3VJRk
Jacdec Sicherheitsranking Luftfahrtgesellschaft Emirates
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹِم کلارک جون دو ہزار بیس میں امارات ایئر لائن کا صدارتی عہدہ چھوڑ دیں گے۔ وہ گزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے امارات ایئرلائن کے ساتھ وابستہ ہیں اور انہوں نے دبئی کو 'دنیا کے مسافروں کا مرکز‘ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم امارات ایئرلائن کے چیئرمین شیخ احمد بن سعيد المكتوم نے کہا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ٹِم کلارک کمپنی کے ساتھ بطور مشیر وابستہ رہیں گے۔ شیخ احمد کا کہنا تھا، ''جنگوں، معاشی بحرانوں، قدرتی آفات یا انسان کے پیدا کردہ بحرانوں کی وجہ سے بہت سی صنعتوں میں افراتفری پھیل چکی ہے لیکن ٹِم نے امارات ایئر لائن کو وہاں تک پہنچایا، جہاں وہ آج کھڑی ہے، اسے دنیا کی سب سے بڑی ایئرلائن بنایا۔‘‘

ستر سالہ ٹم کلارک 1985ء میں امارات ایئرلائن کی بانی ٹیم میں شامل تھے۔ سن 1985ء میں امارات ایئرلائن کا آغاز پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) سے طیارے لیز پر لے کر کیا گیا تھا۔ آج اس کمپنی کے پاس 270 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے 159 ہوائی اڈوں پر آپریٹ کرتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل امارات ایئرلائن نے اُس پاکستانی کیپٹن کی یادوں پر مبنی ایک انٹرویو بھی شائع کیا تھا، جو اکتوبر 1985ء میں امارات ایئرلائن کی افتتاحی تقریب میں کراچی سے پہلی فلائٹ لے کر دبئی پہنچے تھے۔

 کیپٹن فضل غنی میاں کا کہنا تھا کہ بیس اکتوبر کو امارات کے پہلے دو طیارے ایک ایئربس اور ایک بوئنگ طیارہ دبئی پہنچے تھے اور یہ دونوں طیارے 'ڈرائی لیز‘ پر پی آئی اے سے حاصل کیے گئے تھے۔ ڈرائی لیز میں ہوائی جہاز، ہوائی جہاز کا عملہ، مرمت اور انشورنس شامل ہوتے ہیں۔ فضل غنی میاں بھی ٹم کلارک کی طرح امارات کی بانی ٹیم میں شامل تھے۔

امارات ایئر لائن کی طرف سے جاری کردہ انٹرویو میں کیپٹن فضل غنی میاں بتاتے ہیں کہ انہیں متحدہ عرب امارات کے قومی پائلٹوں کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس طرح ان ابتدائی پائلٹوں نے تربیت  تو دبئی میں حاصل کی تھی لیکن انہوں نے اپنے تجارتی لائسینس پاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی سے حاصل کیے تھے۔

امارات ایئرلائن گزشتہ اکتیس برسوں سے ایک منافع بخش کمپنی بن چکی ہے اور دبئی ایئرپورٹ سن دو ہزار چودہ سے ہیتھرو ایئرپورٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس کی وجہ سے دبئی دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔