1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رحيم يار خان ميں مندر مرمت کے بعد ہندو برادری کے حوالے

عاصم سلیم
10 اگست 2021

رحيم يار خان کے قريب ہندوؤں کے مندر کو مرمت کے بعد ہندو کميونٹی کو لوٹا ديا گيا ہے۔ اقليتی برادريوں کے حقوق کے ليے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ پاکستان ميں صورتحال بھارت اور چين سے بہتر ہے مگر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/3ymvm
Pakistan Rawalpindi  Hindu Tempel Vandalismus
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستانی صوبہ پنجاب ميں ضلع رحيم يار خان کے گاؤں بھونگ ميں حملے کی زد ميں آنے والے مندر کو مرمت کے بعد مقامی ہندو برادری کو لوٹا ديا گيا ہے۔ ضلعی انتظاميہ کے اہلکار خرم شہزاد نے پير کو خبر رساں اداروں کو اس پيش رفت کی تصديق کرتے ہوئے بتايا کہ ہندو برادری کے ارکان جلد ہی اپنے مندر ميں عبادت شروع کر ديں گے۔

مندر پر حملہ: پاکستانی ہندوؤں میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل کیوں مسترد ہو گیا؟

اقلیتوں کے لئے نصابی کتب: نفرت انگیز مواد کا خاتمہ

گزشتہ ہفتے علاقے کے مشتعل افراد نے مذکورہ مندر پر حملہ کرتے ہوئے اس کے دروازے کو نذر آتش کر ديا تھا اور مندر کے اندر مورتيوں کو بھی نقصان پہنچايا گيا تھا۔ مقامی افراد کا الزام تھا کہ ايک ہندو لڑکے نے ايک مدرسے کی بے حرمتی کی تھی۔ بچے کو بعد ازاں حراست ميں لے ليا گيا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے مدرسے کی لائبريری ميں قالين پر پيشاب کيا تھا، جہاں مذہبی کتابيں بھی تھيں۔ مقامی لوگوں کے بقول يوں يہ بچہ توہين مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکام نے مندر پر حملے کے شبے ميں درجنوں افراد کو گرفتار کر ليا تھا۔

بھونگ مندر کی تعمیر نو مکمل، پوجا کے لیے تیار

مساجد کی بے حرمتی اس وقت نہيں ہوتی جب وہاں بچوں کے ساتھ جنسی افعال کيے جاتے ہيں؟

ملک ميں اقليتی برادريوں کے حقوق کے ليے سرگرم غير سرکاری تنظيم 'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے ڈائريکٹر نپوليئن قيوم نے ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ اس قدر کم مدت ميں مندر کی مرمت کر کے اسے واپس کر ديا جانا يقيناً مثبت پيش رفت ہے مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ايسا ہوا ہی کيوں؟

انہوں نے کہا، ''بچے نے کچھ غلط نہيں کيا۔ وہ وہاں صرف پانی پينے گيا تھا جس پر مولوی صاحب نے اسے بلا کر ڈانٹا اور مارا پيٹا اور اسی کے نتيجے ميں اس کا پيشاب نکل گيا۔‘‘ نپوليئن قيوم نے سوال اٹھايا کہ جب مساجد اور مدرسوں ميں بچے کے ساتھ زيادتی ہوتی ہے، کيا اس وقت مقدس مقامات کی توہين نہيں ہوتی؟

تاريخی پس منظر اور اقليتی برادريوں کی صورتحال

ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت ميں انہوں نے کہا، ''ہم آج بھی قائد اعظم کے پاکستان کی تلاش ميں ہيں؟ قائد اعظم تو خود تين مرتبہ مسلم ليگ سے عليحدہ ہو گئے تھے۔ پھر يہ نعرہ بلند کيا گيا تھا کہ 'مسلم ہو تو مسلم ليگ ميں آؤ۔‘ جون سن 1947 ميں مسيحی برادری نے باؤنڈری کميشن ميں شامل ہو کر يہ درخواست دی تھی کہ مسيحی اکثريت والے علاقوں کو مسلم علاقوں کے ساتھ شامل کيا جائے۔ ليکن يہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے يہاں اقليتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہيں اختيار کيا گيا۔ گوجرا بستی جلی، شانتی نگر کو نذر آتش کيا گيا، قصور جلا۔ حکومت دوبارہ بربادی کے بعد تعمير کر ديتی ہے ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ بنانے کے بعد ايسے واقعات دوبارہ کيوں ہوتے ہيں۔‘‘

'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے سربراہ کے مطابق اگر پاکستان ميں اقليتوں کی صورت حال کا موازنہ بھارت اور چين سے کيا جائے، تو معاملات کافی بہتر ہيں مگر بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ ان کے بقول پاکستان ميں مذہب کی بنياد پر تعصب کيا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ مذہب اور رياست کو عليحدہ رکھا جانا چاہيے۔

 نپوليئن قيوم نے کہا، ''اگر ميں ہسپتال چلا جاؤں، تو چاہے میرے دل ميں تکليف ہو اور مجھے فوری طبی امداد درکار ہو، ميری پرچی سب سے آخر ميں رکھ دی جائے گی اور ہر کسی کے بعد ميرا نمبر آئے گا۔ صرف اس ليے کيونکہ ميں مسيحی ہوں۔‘‘

'پاک سينٹر فار لا اينڈ جسٹس‘ کے سربراہ نپوليئن قيوم کے مطابق لوگوں ميں آگہی کی کمی عدم برداشت کی وجہ بنتی ہے۔ ان کی تجويز ہی کہ ملک کے تمام مذہبی مقامات چاہے وہ مساجد ہوں، گرجا گھر ہوں مندر ہوں يا گردوارے، انہيں لوگوں ميں آگاہی پھيلانے کے ليے بھی استعمال کيا جائے۔

پاکستانی ہندوؤں کا بھارتی حکومت سے شکوہ