افغانستان کے وہ بچے، جن کے ہاتھوں میں قلم نہیں ہتھیار آئے
17 فروری 2016اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ برائے اطفال اور مسلح تنازعات لیلیٰ زرقائی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں حکومت کی طرف سے تو مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے لیکن حکومت کے اتحادی ملیشیا گروپ اور مقامی افغان پولیس ابھی تک نابالغ بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر مسلح گروپوں کے ساتھ ساتھ حکومت کا ساتھ دینے والے ان گروہوں کا شمار بھی اہم قصور واروں میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرحد کے قریب بھی طالبان بڑی تعداد میں نابالغوں کو جنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ لیلیٰ زرقائی کا بیان ہیومن رائٹس کی اس رپورٹ کے ایک دن بعد سامنے آیا، جس کے مطابق گزشتہ برس کے وسط سے طالبان نے بچوں کو بھرتی کرنے کا عمل تیز تر کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق صوبہ قندوز میں گزشتہ برس کے دوران تقریباً ایک سو بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سلسلے میں طالبان مدرسوں کو استعمال کر رہے ہیں اور وہاں پر پڑھنے والے بچوں کو عسکری تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس دوران انہیں اسلحہ اور بم استعمال کرنے کے علاوہ بم بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان اس مقصد کے لیے خاص طور پر غریب خاندان کے بچوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ اکثر غریب بچے اسکول نہیں جا پاتے اور مدرسوں میں انہیں کھانا اور کپڑے مفت دیے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ طالبان چھ سال کے بچوں کو عسکری تربیت دینا شروع کرتے ہیں اور جنگ میں تیرہ سے سترہ سال تک کے بچوں کو بھیجا جاتا ہے۔
لیلیٰ زرقائی کے مطابق افغانستان کی زیادہ تر آبادی کی عمر اٹھارہ برس سے بھی کم ہے اور کم عمر فوجی بچوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی فراہم نہیں کیے جاتے، ’’ان بچوں کو اسکول جانے کی سہولت میسر نہیں ہے، ان کو صحت کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔ مسلح گروپ انہیں اپنا ہدف بنا رہے ہیں اور ان سے روشن مستقبل کی امیدیں تک چھین لی جاتی ہیں۔‘‘
رواں ماہ کے آغاز میں افغان حکومت نے اس دس سالہ بچے کی ہلاکت کی تصدیق کر دی تھی، جس کو طالبان کے خلاف لڑنے کی بنیاد پر ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اس دس سالہ بچے کو اسکول جاتے ہوئے ہلاک کر دیا گیا تھا۔