افغانستان میں امریکی مفادات پر حملہ پاکستان سے اتحاد کے لیے خطرہ
9 نومبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس خاتون امریکی عہدیدار سے اسلام آباد میں انٹرویو کیا اور معاملے کی حساسیت کی وجہ سے ان کا نام واضح نہیں کیا۔
روئٹرز کے مطابق اس عہدیدار نے حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں کے زیر استعمال ٹھکانوں کی تباہی میں ناکامی پر پاکستان سے امریکی ناراضگی کا ذکر کیا۔ اس عہدیدار نے افغانستان میں امریکی مفادات پر کیے گئے بڑے حملوں میں وسطی صوبہ وردگ میں امریکی فوجی اڈے اور کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذکر کیا۔
گزشتہ ماہ صوبہ وردگ کے حملے میں 77 امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے جبکہ کابل کے امریکی سفارتخانے پر قریب ہی واقع ایک بلند عمارت سے قریب 20 گھنٹے تک گولیاں برسانے کے واقعے میں سکیورٹی اہلکاروں کے بشمول نو افغان شہری مارے گئے تھے۔
ان دونوں حملوں کی ذمہ داری عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک پر عائد کی گئی تھی۔ امریکی فوج کی مشترکہ کمان کے سابق سربراہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس آئی ایس آئی کا بازو قرار دے چکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے ان حملوں کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے حقانی نیٹ ورک کو ایک گولی یا ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا۔
سابق افغان مجاہد کمانڈر جلال الدین حقانی کے اس نیٹ ورک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے تربیتی مراکز وزیرستان میں ہیں اور یہ افغانستان کے مشرقی، وسطی اور شمال مشرقی علاقوں میں کارروائیاں کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ حقانی نیٹ ورک طالبان لیڈر ملا عمر کو اپنا قائد اور خود کو طالبان کی ’کوئٹہ شوریٰ‘ کے ماتحت قرار دیتا ہے مگر روئٹرز کے مطابق حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ اور کنٹرول کا نظام خود مختار ہے۔
اس اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق، ’’ ایک کامیاب بڑا حملہ یا کئی چھوٹے ناکام اقدامات، جو ممکن ہیں، تعلقات کو اُس رخ پر لے جائیں گے جو دونوں ممالک کے لیے تباہ کُن ہوگا۔‘‘ انہوں نے وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کے امکانات بھی کم ظاہر کیے۔
اسلام آباد حکومت بھی واشنگٹن سے شکوہ کرتی ہے کہ امریکہ اس وقت پاکستان پر دباؤ بڑھا دیتا ہے جب اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اسے پاکستان کے دیگر مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل