1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں مریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی؟ اوباما کا تذبذب

کشور مصطفیٰ1 فروری 2016

ہندوکُش کی ریاست افغانستان گزشتہ پندرہ برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دور حکومت کے اختتام تک افغاستان کے بحران کے خاتمے کی امید دلائی تھی تاہم یہ اب ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HmuJ
تصویر: Reuters/G. Cameron

تشدد مسلسل بڑھ رہا ہے، طالبان نئی کارروائیوں میں مصروف ہیں، دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی ممکنہ کوششیں کر رہا ہے اورامن کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

افغانستان ماضی کی طرح اب بھی ایک خطرناک علاقہ ہے۔ کمزور معیشت کے سبب عوام کا نئی حکومت پر اعتماد کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ افعانستان میں متعین امریکی قیادت والے فوجی اتحاد کے 90 فیصد فوجی دستوں کے انخلاء کے 13 ماہ بعد افغان پولیس اور فوجی اہلکار اپنے ملک میں امن عامہ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما دوسری بار افغانستان سے اپنے فوجیوں کے مزید انخلاء کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ غالباً 2017 ء میں عہدہ صدارت سے سُبک دوش ہونے سے پہلے اوباما افغانستان میں سرگرم اپنے 9,800 فوجیوں کی تعداد کم کر کے اسے 5,500 تک کرنے کے منصوبے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

John W. Nicholson USA NATO Afghanistan Nominierung Oberkommandeur
افغانستان میں امریکی قیادت میں قائم نیٹو مشن کے نامزد کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جان نکلسنتصویر: picture-alliance/dpa/M.L. Sprenkle/U.S. Army

اُدھر اوباما کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی مندوب جیمزڈوبنس کا کہنا ہے کہ غالباً اوباما یہ فیصلہ آئندہ امریکی صدر پر چھوڑ دیں گے۔ جیمز کے بقول،’’میں افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد میں مستقبل قریب میں کوئی کمی نہیں دیکھ رہا۔‘‘

جیمز ڈوبنس کا مزید کہنا تھا،’’وہ امید کر رہے ہیں کہ ایسی صورتحال سامنے نہ آئے جس کے سبب انہیں رواں برس موسم گرما تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے فیصلے پر عمل درآمد کرنا پڑے۔‘‘

امریکا کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور کانگریس کے ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں اراکین کا یہ خیال ہے کہ اوباما کے صدارتی دور کے دوران افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد میں کمی کا فیصلہ دانش مندانہ عمل نہیں ہوگا۔

امریکی سینیٹ میں آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین، اریزونا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سیاستدان جان مک کین نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا،’’افغانستان بحرانی صورتحال سے دو چار ہے۔‘‘

Demonstration Afghanistan Koran Verbrennung
افغانستان میں بدامنی جاری ہےتصویر: AP

ابتدائی طور پر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ برس کے آخر تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے 5,500 کر دیا جائے گا اور 2016 ء کے اواخر تک اس میں مزید 1,000 کی کمی کی جائے گی۔ گزشتہ موسم خزاں میں اوباما نے یہ کہتے ہوئے اپنا یہ فیصلہ بدل دیا کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کے انخلاء کے لیے حالات بہت نازک ہیں۔ اوباما نے 2016 ء میں اپنے 9,800 فوجیوں کی تعداد برقرار رکھنے کے منصوبے کا اعلان کیا تاہم اس عرصے میں امریکی فوج کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی کسی جارحانہ جنگی کاروائی میں ملوث نہیں ہوں گے بلکہ انسداد دہشت گردی کے مشن اور افغان فورسز کی طالبان باغیوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے مشیر کا کردار ادا کریں گی۔

2015 ء افغانستان کے میدان جنگ کے اعتبار سے ایک کٹھن سال رہا۔ افغان پولیس اور فوجی اہلکار جو امریکی ٹیکس دہندگان کے قریب 4.1 بلین ڈالر کی مدد سے سرگرم ہیں، نے حقیقی معنوں میں اپنے زور بازو پر طالبان باغبوں کا مقابلہ کیا۔ 2001 ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ افغان فورسز خود طالبان باغیوں کے خلاف برسر پیکار رہیں۔

نیٹو حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اگرچہ افغان فورسز دلیری اور جواں مردی کے ساتھ طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کر رہی ہیں تاہم انہیں بھاری جانی نقصان کا سامنا رہا ہے۔ دسمبر 2014ء میں بین الاقوامی فوجی مشن کے خاتمے سے پہلے کے مقابلے میں 2015 ء میں افغان سکیورٹی اہلکاروں کو 28 فیصد زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں