1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان عوام کا مستقبل اور حکومت کو لاحق چیلنجز

25 دسمبر 2014

افغانستان کی موجودہ مجموعی صورتحال میں عوام میں پائی جانے والی ایک نپی تُلی رجائیت پسندی پائی جاتی ہے جس کی وجہ ملک میں نئے صدر سے وابستہ امیدیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EA2b
تصویر: DW/H. Sirat

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کو قریب 13 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس اثناء میں سیاسی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کوششیں جاری رہیں تاہم افغان عوام کی روز مرہ کی زندگی میں بہتری کے آثار اب بھی نمایاں نظر نہیں آ رہے۔

سال 2014 ء اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ چند دنوں کے اندر افغانستان سے امریکی قیادت میں تعینات عالمی امن فورس کے آخری دستے بھی انخلاء کا عمل مکمل کر لیں گے۔ اس سال کو 2001 ء کے بعد سے افغانستان کا اب تک کا سب سے خونریز سال قرار دیا جا رہا ہے اور انٹرنیشنل فورس کے ملک سے نکل جانے کے بعد ملکی سلامتی کی تمام تر ذمہ داری افغان سکیورٹی فورسز کے کاندھوں پر ہوگی۔ ملک اور قوم کے مستقبل کا دارومدار اب قومی اداروں پر ہی ہوگا۔ 2014 ء کے دوران افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور ديگر پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی سول اور فوجی ہلاکتوں نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

امید کی ایک کرن

افغانستان کی موجودہ مجموعی صورتحال میں عوام میں پائی جانے والی ایک نپی تُلی رجائیت پسندی پائی جاتی ہے جس کی وجہ ملک میں نئے صدر سے وابستہ امیدیں ہیں۔ صدر اشرف غنی نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور عشروں سے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ چلے آ رہے کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ غنی کو یادگار چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف ملکی فوج اور حکومتی اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو دوسری جانب بدعنوان حکومت کی اصلاح کا کام ہے۔ اُدھر طالبان جنگجوؤں نے بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ افغانستان سے آخری غیر ملکی فوجی کے انخلاء تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔

Übergabe des International Security Assistance Force Joint Command
عالمی امن فورس کے آخری فوجی چند روز کے اندر افغانستان چھوڑ دیں گےتصویر: picture-alliance/AP/Massoud Hossaini

افغان شہریوں کو لاحق خطرات

افغانستان متعینہ اقوام متحدہ کے ایک چوٹی کے مندوب نیکولاس حیسم کے مطابق سال رواں ميں گزشتہ گیارہ ماہ یعنی نومبر تک افغانستان میں 9,617 شہری دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہوئے، جن میں سے 3،188 لقمہ اجل بن گئے جبکہ 6،429 زخمی ہوئے۔ ان اعداد و شمار میں سے 75 فیصد واقعات کا موجب طالبان کے حملے بنے۔ افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی بُری طرح طالبان حملوں کا نشانہ بنے رہے۔ رواں سال کے دوران طالبان حملوں کا نشانہ بنتے ہوئے 5000 افغان فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ 13 برسوں میں ہندو کُش کی اس ریاست میں 3,500 غیر ملکی فوجی، جن میں 2،210 امریکی فوجی شامل ہیں ہلاک ہوئے۔ جیسے جیسے امریکی اور نیٹو کے فوجیوں نے افغانستان میں اپنی فوجی سرگرمیاں اور پیش قدمی ختم کی ویسے ويسے وہاں طالبان باغیوں نے دیہات، ضلعوں اور قصبوں میں دوبارہ سے منظم ہونا شروع کر دیا ہے۔

انٹرنیشنل ایڈ ایمرجنسی ایجنسی کے پروگرام کوارڈینیٹر یا رابطہ کار ایمانوئل نینی کے بقول، ’’طالبان باغیوں کی طرف سے افغانستان کے گاؤں، دیہات اور قصبوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش افغان شہریوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو گی۔‘‘

اچھے اور بُرے طالبان باغی

افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے مشترکہ طور پر اس امر پر زور دیا ہے کہ مستقبل میں اچھے اور بُرے طالبان باغیوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ تاہم مبصرین اسے پاکستان کی ایک عرصے سے طالبان کے بارے میں چلی آ رہی پالیسی کا حصہ قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت پاکستانی حکام اپنے طالبان باغیوں کے خلاف تو نبرد آزماء ہيں تاہم افغان طالبان کی طرف سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

Afghanistan Polizei Selbstmordattentat in Kabul 13.12.2014
مستقبل میں ملک کی سلامتی کی ذمہ داری افغان فورسز پر ہوگیتصویر: REUTERS/Mohammad Ismail

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مسائل طالبان، شورش اور بغاوت سے بھی بڑھ کر ہیں۔ رواں برس ملک میں انتہائی طویل عرصے تک جاری رہنے والے انتخابی عمل سے ملک میں سرمایہ کاری کے رجحان کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ملک کی غیر یقینی صورتحال نے سرمایہ کاری کو سست روی کا شکار کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو مقامی کرنسی سال رواں کے شروع میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 50 افغانی تھی اُس کی قدر سال کے آخر تک گر کر 58 افغانی ہو گئی۔

جنگ سے تباہ حال اس ملک میں روز مرہ زندگی کے اخراجات کی قیمت کا انحصار درآمدات پر ہے تاہم ان قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ صرف دو سال پہلے افغانستان کی اقتصادی نمو کی شرح 10 فیصد یا اس سے زیادہ ہوا کرتی تھی، جس میں واضح کمی آئی ہے اور جس کی وجہ غیر ملکی امداد میں کٹوتی بنی ہے۔

امریکی کانگریس نے افغانستان کو دی جانے والی سویلین امداد میں رواں مالی سال کے ليے 1.12 ارب ڈالر کی کٹوتی کر دی ہے، جو گزشتہ برس دی جانے والی امداد میں نصف کی کمی بنتی ہے۔ 2013 ء میں امریکا کی طرف سے افغانستان کو 2.29 ارب ڈالر سویلین امداد دی گئی تھی۔ دریں اثناء صدر باراک اوباما نے افغانستان کے لیے آئندہ سال یعنی 2015 ء کے لیے 1.59 ارب ڈالر کی سویلین امداد کی درخواست کی ہے۔