1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان ميں موت يا پاکستان ميں مشکلات سے بھری زندگی

عاصم سلیم
10 فروری 2018

افغانستان ميں حاليہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں پاکستانی حکام ملک سے افغان مہاجرين کی واپسی چاہتے ہيں تاہم يہ مہاجرين اپنے آبائی ملک کی نسبت پاکستان ميں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2sRjH
Pakistan Karkhano Markt in Peshawar
تصویر: DW/F. Khan

افغان مہاجر محمد ولی کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں موت ان کی منتظر ہے۔ اس کے بقول جيسی تيسی ہی سہی، وہ پاکستان کے کسی مہاجر کيمپ ميں ہی اپنی بقيہ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ولی پشاور ميں پھل فروخت کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب اس نے حملوں کے بعد افغانستان ميں اپنے رشتہ داروں سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کيا، تو انہوں نے صرف ہولناک حملوں اور خود کش حملوں کی بات کی۔ ’’ان کے پاس بات کرنے کو صرف پریشان کن خبريں ہيں۔‘‘

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی مقامی شاخ کے مطابق پاکستان ميں اس وقت رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد لگ بھگ 1.4 ملين ہے جبکہ اندازوں کے مطابق سات لاکھ غير رجسٹرڈ افغان تارکين وطن بھی پاکستان ميں مختلف شہروں ميں مقيم ہيں۔ افغانستان ميں پچھلے ماہ متعدد حملوں ميں 130 افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام نے اپنے ہاں موجود ان مہاجرين پر واپسی کا دباؤ بڑھا ديا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ طالبان کے جنگجو، ان مہاجرين کی صفوں ميں چھپ پر کارروائياں کرتے ہيں۔ پاکستان نے اسی تناظر ميں ايک مرتبہ پھر تمام افغان مہاجرين کی  واپسی کا تذکرہ شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے ميں پچھلے ماہ ايک ڈرون حملے کے بعد وزارت خارجہ نے کہا تھا، ’’پاکستان ايک عرصے سے افغان مہاجرين کی جلد از جلد واپسی پر زور ديتا آيا ہے کيوں کہ ان کی يہاں موجودگی، افغان دہشت گردوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ان ميں گھل مل کر چھپ سکيں۔‘‘ پاکستان ميں ايک طرف تو سرکاری سطح پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ تو دوسری جانب مقامی عوام ميں بھی برداشت کا عنصر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پشاور کے رہائشی محمود خان نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’بہت ہو گيا، ہم پچھلے چاليس برس سے افغان مہاجرين کے ساتھ اپنا گھر اور سب کچھ بانٹتے آئے ہيں۔ انہيں مہمانوں کی طرح رکھا۔‘‘

پاکستان ميں مہاجر کيمپوں ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مہاجرين کے ساتھ ’بد سلوکی‘ کی رپورٹيں بھی موصول ہوتی رہی ہيں۔ ڈی ڈبليو نے اس بارے ميں جب يو اين ايچ سی آر کی مقامی شاخ کی سربراہ رووين مينک ڈيويلا سے سوال کيا، تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جتنے بھی افغان مہاجرين سے دريافت کيا، وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں اور انہوں نے پوليس کے ہاتھوں تشدد يا بد سلوکی کی خبروں کو مسترد کيا۔

پاکستان نے افغان مہاجرين کو جاری کردہ شناختی دستاويز کی مدت ميں جنوری کے اواخر ميں دو ماہ کی توسيع کرتے ہوئے، اس وقت تک تمام افغان مہاجرين کی ملک بدری کے احکامات جاری کيے ہيں۔ تاہم يو اين ايچ سی آر کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرين کی واپسی رضاکارانہ بنيادوں پر ہی ہونی چاہيے۔ تاہم افغانستان ميں سلامتی کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ کہا جا سکتا ہے کہ يہ نا ممکن سی بات ہے۔

خبر رساں ادارے اے ايف پی نے دارالحکومت اسلام آباد کے نواح ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی کے رہائيشيوں سے بات کی۔ ساٹھ سالہ حاجی شہزادہ چار دہائی قبل پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے ملک ميں کچھ بچا ہی نہيں ہے، وہاں صرف جنگ ہے۔‘‘