1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: تشدد کی تازہ لہر

30 اگست 2010

افغانستان میں آئندہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل جہاں سیاسی سرگرمیاں اورانتخابی مہم کی گہما گہمی نظر آرہی ہے وہیں جنگ سے تباہ حال ملک میں تشدد کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/Oz4e
کابل: بم دھماکے کے بعد کا منظر،فائل فوٹوتصویر: AP

گزشتہ روز، اتوار کو کابل کے نزدیک پارلیمانی انتخابات کی مہم میں مصروف پانچ کارکنوں کو ایک مسلحہ شخص نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ادھر مغربی صوبے ہرات میں 18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے ایک امیدوار حاجی عبدل منان کو اُس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ مسجد کی طرف نماز پڑھنے جا رہے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کر لی ہے۔ اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی صوبے ہرات ہی سے اغوا ہونے والے دس افراد کے ایک گروپ میں سے پانچ کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ گزشتہ چند روز کے اندرآئندہ پارلیمانی انتخابات میں شرکت کرنے والے ان امیدواروں کی تعداد چار ہو گئی ہے جن کو مزاحمت کاروں نے ہلاک کردیا ہے۔

افغانستان کے پارلیمانی انتخابات میں معاونت کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن UNAMA نے ان ہلاکتوں کی کڑی مذمت کی ہے۔ اس مشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ اس قسم کی دہشت گردیاورقتل کے واقعات پارلیمانی الیکشن کے تمام امیدواروں اوراُن کے حامیوں کو حراساں کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔ یہ طرزعمل نا قابل برداشت ہے‘۔ UNAMA نے افغان سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتوں کے دوران ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے چوکنا رہیں اور سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی جائے۔ اقوام متحدہ کے اس مشن نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے امیدواروں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

Anschläge Friedens-Dschirga in Kabul Afghanistan Flash-Galerie
سکیورٹی اہلکار اور افغانستانتصویر: AP

ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ 18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات دراصل افغانستان کی سلامتی کی صورتحال کو پرکھنے کا ایک اہم موقع ہوگا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کی سکیورٹی اور استحکام کے لئے افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب غیر ملکی فوجی تعینات ہیں اور تین لاکھ افغان سکیورٹی کے اہلکاران کی معاونت کر رہے ہیں، تاہم امن عامہ اور سلامتی کی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔

افغانستان کے جنوب اورمشرقی علاقوں کی صورتحال سب سے زیادہ تشویش ناک ہے جنہیں طالبان کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ان علاقوں سے کرپشن اورانتخابی دھاندلیوں پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال بدستور تشوش ناک ہے۔

گزشتہ اتوار کو صوبے ہرات کے ایک ڈسٹرکٹ چیف نصار احمد پوپل نے بتایا کہ ایک دس رکنی گروپ جو کئی روز سے لاپتہ تھا، اس سے تعلق رکھنے والے 5 اراکین کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ہرات کے کوہستانی علاقے سے ملی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں کس نے قتل کیا۔ تاہم قتل ہونے والے یہ افراد آئندہ پارلیمانی انتخابات کی ایک خاتون امیدوار فوزیہ گیلانی کی انتخابی مہم کے لئے کام کر رہے تھے۔ فوزیہ کوایک نڈراورنہایت صاف گواوربے لاگ لیڈر مانا جاتا ہے۔

دریں اثناء واشنگٹن انتظامیہ نے 18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافے سے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پختون اکثریت والے مشرقی اور جنوبی افغانستان کے انتخابی حلقوں میں ووٹروں کی تعداد بہت کم رہنے کے امکانات ہیں۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں طالبان اب بھی بہت طاقتور ہیں۔

18 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات جن میں ایوان زیریں کی 249 نشستوں کے لئے ووٹنگ ہوگی، یہ صدر حامد کرزئی کا ایک بڑا امتحان بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ صدارتی انتخابات کے بعد دھاندلیوں اور انتخابی بے ضابطگیوں کے ضمن میں حامد کرزئی پر جو اندرونی اور بیرونی تنقید کی گئی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرزئی پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ چکا ہے اورآئندہ پارلیمانی انتخابات اُن کا ایک بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں