1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا فضل الرحمان کابل میں

7 جنوری 2024

جے یو آئی ف کے مطابق مولانا کے دورے کا مقصد طالبان قیادت کے ساتھ علاقائی امن اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے حوالے سے بات چیت بھی ایجنڈے پر ہے۔

https://p.dw.com/p/4ax2r
Pakistan Jamiat Ulema-e-Islam
مولانا فضل الرحمان نے کابل میں طالبان کے نائب وزیراعظم مولانا عبدالکبیر سے ملاقات کیتصویر: @juipakofficial

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان افغانستان میں حکمران طالبان قیادت کے ساتھ بات چیت کے لیے اتوار کے روز اسلام آباد سے کابل پہنچ گئے۔

 ان کی جماعت جے یو آئی (ف) کے میڈیا سیل کی جانب سے اتوار کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی گئی ایک پوسٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کابل میں طالبان کے نائب وزیراعظم مولانا عبدالکبیر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی ، مولوی عبد الطیف منصور ودیگر طالبان رہنما بھی موجود تھے۔

مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ ان کی جماعت کے رہنماؤں پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد بھی کابل گیا ہے۔ بیان کے مطابق  وہ یہ دوراہ افغان طالبان کی دعوت پر کر رہے ہیں اور اس کا مقصد علاقائی اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ 

Pakistan Jamiat Ulema-e-Islam
مولانا فضل الرحمان اپنے وفد کے ہمراہ طالبان قیادت سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: @juipakofficial

اس سے قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان آج (اتوار) کو کابل پہنچیں گے۔ سن2021 میں طالبان کے افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد مولانا فضل الرحمان کا یہ کابل کا پہلا دورہ ہے۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کی وجہ سےکابل اور اسلام آباد کے مابین تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردانہ حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔

پاکستانی سلامتی کے اداروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد  گروہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام افغان طالبان سے افغانستان میں موجود نے ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خاتمے اور اس کے رہنماؤں کی پاکستان حوالگی  کے مطالبات کرتے آئے ہیں۔

پاکستان کے  نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نومبر کے مہینے میں کہا تھا کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اور خودکش دھماکوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

Pakistan Bombenanschlag
افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہست گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Hussain Ali/Pacific Press Agency/IMAGO

دریں اثنا، اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے اس ہفتے کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں دہشت گردی سے متعلق 82 فیصد سے زیادہ اموات تین بڑے گروپوں بشمول ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔

کابل روانگی سے قبل ہفتے کی رات اپنی رہائش گاہ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ان کے دورہ افغانستان کے دوران ٹی ٹی پی کے معاملے پر بات چیت ایجنڈے میں شامل ہے۔

جے یو آئی ایف کے سربراہ نے کہا، ''مجھے طالبان کے سپریم لیڈر کی منظوری سے دعوت نامہ موصول ہوا ہے اور میں ان سے ملاقات کروں گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ طالبان کے سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات کے لیے قندھار جائیں گے۔  فضل الرحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ اپنے رابطوں کی سطح کو دونوں ممالک کے فائدے کے لیے استعمال کریں گے۔

ش ر ⁄ ا ا

پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی حالت زار