1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

غزہ بحران: پاکستانی مذہبی تنظیموں پر نرم ردعمل کا الزام

عبدالستار، اسلام آباد
20 مئی 2021

فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں دو سو سے زائد افراد کی ہلاکتوں کے باوجود پاکستان میں کسی بھی مذہبی تنظیم نے ابھی تک کوئی بڑا مظاہرہ نہیں کیا۔ جس پر کئی حلقے مذہبی تنظیموں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3tfWz
تصویر: Kevin Hagen/AP Photo/picture alliance

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مذہبی تنظیموں کا یہ رویہ ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت کی وجہ سے بھی ہے جبکہ کچھ کے خیال میں مذہبی تنظیموں نے کبھی بھی فلسطین کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی انہوں نے افغانستان اور کشمیر کو دی ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کے طول و عرض پر مذہبی تنظیموں نے بڑے بڑے جلوس اور ریلیاں نکالی تھی جبکہ کئی شہروں میں بڑے بڑے جلسے بھی کیے تھے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی مذہبی تنظیموں کے بڑے اجتماعات ہوئے اور انہوں نے احتجاجی مارچ بھی کیے۔ تاہم مسئلہ فلسطین پر اس طرح کا کوئی بڑا پروگرام  دیکھنے میں نہیں آیا۔

تاریخی وجوہات

ناقدین کے خیال میں اس کی ایک بہت بڑی وجہ تاریخی بھی ہے۔ تاریخی طور پر پی ایل او میں شامل تنظیمیں سیکولر رہی ہیں اور ان کا رجحان سوشلسٹ بلاک کی طرف تھا جب کہ پاکستان کی ریاست اور اس کی مذہبی تنظیمیں سرد جنگ کے دوران امریکا کی اتحادی رہیں اورافغانستان میں جہاد کیا۔

لاہورسے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مذہبی تنظیموں نے کبھی بھی فلسطین کی آزادی کی پرجوش حمایت نہیں کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "صرف پاکستان کی مذہبی تنظیمیں نہیں بلکہ مصر کی اخوان المسلمین اور مسلم دنیا کی دوسری اسلامی تنظیمیں بھی فلسطینی سیکولر اور ترقی پسند تنظیموں کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ جو آزادی کے لیے لڑ رہی تھی۔ یہاں تک کہ جب صابرہ اور شتیلا کا واقعہ ہوا اس وقت بھی پاکستان میں مذہبی تنظیموں نے فلسطینیوں کے لیے کوئی بڑا مظاہرہ نہیں کیا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں مذہبی تنظیموں کے رویے کا تعلق فرقہ وارانہ سیاست سے بھی ہے۔ "پاکستان کی مذہبی تنظیموں کو پتہ ہے کہ سعودی عرب فلسطین کے مسئلے کا اتنا پرجوش حامی نہیں ہے اور خصوصا پہلی خلیجی جنگ کے بعد زیادہ تر عرب ممالک نے فلسطینی مسئلے کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ فلسطینیوں نے صدام حسین کے حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے ایران نے اس مسئلے کو ہائی جیک کر لیا۔ اس لیے پاکستان کی مذہبی تنظیمیں خصوصا سنی مذہبی تنظیمیں اس مسئلہ پر زیادہ پرجوش نظر نہیں آتی۔‘‘

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پرپاکستان میں ہمیشہ بائیں بازو کی قوتوں نے فلسطین کی آزادی کی حمایت کی جبکہ مذہبی تنظیموں کا رویہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی طرف مخالفانہ تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی تنظیمیں جارج حباش اور یاسر عرفات کو ہمیشہ سیکولر اور لادینی سمجھتی تھی۔ ایک طرف مذہبی رجعت پسند جنرل ضیاء نے اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور دوسری طرف جب صابرہ اور شتیلہ میں اسرائیل کے ایجنٹ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے تھے تو پاکستان کی مذہبی تنظیمیں امریکا کے ساتھ مل کر نجیب اللہ کی حکومت کے خلاف افغانستان میں نام نہاد جہاد لڑ رہی تھی، اس جہاد کو اسرائیل کی بھی حمایت حاصل تھی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سنی تنظیمیں اس وقت اس مسئلے پر اس لیے بھرپور انداز میں نہیں بول رہیں کیونکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔"ایسی صورتحال میں سنی تنظیمیں فلسطین کے حق میں کیوں کھل کے بولیں گی کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ اس مسئلہ کو مسلم دنیا میں اب ایران نے ہائی جیک کرلیا ہے۔''

غلط تاثر

 تاہم پاکستان کی مذہبی تنظیمیں اس تاثر کو رد کرتی ہیں۔ خارجہ امور پر مولانا فضل الرحمن کے مشیر اور جے یو آئی ایف کے رہنما جلال الدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کورونا اور رمضان کی وجہ سے ہم نے اب تک کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا گو کہ چھوٹے چھوٹے جلسے جلوس ہو رہے ہیں لیکن کل مولانا فضل الرحمن پشاور میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کریں گے جو مسئلہ فلسطین پر ہوگا۔ ہم نے ہمیشہ اس مسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔‘‘

اس سوال پر کہ اسرائیل کی طرف سے کارروائیاں کئی دنوں سے جاری ہیں اور یہ کہ جے یو آئی ایف نے ابھی تک مظاہرہ کیوں نہیں کیا جلال الدین نے کہا، "فلسطین میں یہ گڑبڑ اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا یہ کوئی وقتی معاملہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رمضان اور کورونا کی وجہ سے لوگوں کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں جس کی وجہ سے جلسہ جلوس کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘

 مذہبی تنظیمیں فلسطین کے ساتھ ہیں

کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت بھی اس تاثر کو رد کرتی ہیں کہ پاکستان میں مذہبی تنظیموں نے اس مسئلے کو بھر پور انداز میں نہیں اٹھایا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میرے خیال میں مذہبی تنظیمیں بھی اس مسئلے پر بھر پور انداز میں احتجاج کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کر چکی ہے۔ القدس فاؤنڈیشن اس حوالے سے پروگرام کر چکی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت فلسطین کے مسئلے کو انسانی سمجھا جا رہا ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔‘‘

ایران سعودی مخاصمت کو کوئی تعلق نہیں

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دیکھا نہیں جا سکتا۔ "آپ دیکھیں کہ حماس والوں کا تعلق شیعہ مکتب فکر سے نہیں ہے لیکن ان کو ایران کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ مسلم دنیا میں بھی عوام کی ایک بڑی تعداد فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ تو میرے خیال میں اس مسئلے کا فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے اور پاکستان میں بھی مذہبی تنظیمیں اسے فرقہ وارانہ نظر سے نہیں دیکھتی۔‘‘