1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے

17 ستمبر 2022

مہسا امینی اپنے بھائی کے ساتھ سیر کرنے نکلی تھیں لیکن حجاب نہ پہننے کی وجہ سے پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ دو روز بعد تھانے میں ان کی موت ہوگئی۔ ایرانی صدر نے معاملے کی تفتیش کا حکم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4H0In
Iran | Mehsa Amini starb durch die Gewalt der iranischen Polizei
تصویر: Kurdpa

مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ذریعہ گرفتاری اور پھر ان پر مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاکت کے خلاف سوشل میڈیا پر لوگوں نے سخت نکتہ چینی کی اور مظاہرے کے لیے سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جمعے کے روز 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔

 مہسا امینی کو منگل کے روز اخلاقی پولیس  نے اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب حجاب کے سخت قوانین پر عمل نہ کرتے ہوئے انہوں نے مبینہ طورپر اپنا سر ڈھانپ نہیں رکھا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز حراست میں انہیں مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔

پولیس نے مہسا امینی کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے ساتھ کسی طرح تشدد کے الزامات کی تردید کی ہے۔ پولیس نے ایک کلوزڈ سرکٹ فوٹیج جاری کیا ہے جس میں امینی کو تھانے میں ایک پولیس افسر کے ساتھ بات کرنے کے لیے اپنی نشست سے اٹھنے کے فوراً بعد منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہیں ایک اسٹریچر پر ڈال کر لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ایران کے معروف وکیل سعید دہگان نے امینی کی موت کو ''قتل‘‘ قرار دیا
ایران کے معروف وکیل سعید دہگان نے امینی کی موت کو ''قتل‘‘ قرار دیاتصویر: UGC

مشتبہ موت کے خلاف مظاہرے

ایران کے معروف وکیل سعید دہگان نے امینی کی موت کو ''قتل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امینی کے سر پر ڈنڈے مارے گئے جس کی وجہ سے ان کا سر پھٹ گیا۔

امینی کے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں قلب کی کسی مرض کی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''جن حالات میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی حراست میں مشتبہ موت ہوئی ہے، اس میں انہیں مبینہ طور پر اذیتیں دی گئیں اور حوالات میں برا سلوک کیا گیا۔ اس مجرمانہ حرکت کی تفتیش کی جانی چاہئے۔‘‘

متعدد اراکین پارلیمان نے کہا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھائیں گے جب کہ عدلیہ نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے گی۔

اس دوران صدر ابراہیم رئیسی نے وزیر داخلہ احمد واحدی کو ''واقعے کی ہنگامی نوعیت کے سبب اس پر فوری توجہ دیتے ہوئے اس کی تفتیش‘‘ کرانے کا حکم دیا ہے۔

اخلاقی پولیس کی نکتہ چینی

ایران کے شرعی قانون  کے مطابق خواتین کو گھروں سے باہرنکلنے پر سروں کو لازمی طور پر ڈھانپ کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عوامی سرزنش، جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اخلاقی پولیس ایسے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے لیے موجود رہتی ہے۔

ایران نے گزشتہ برس کم از کم 280 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا

شریعہ قوانین کے مختلف پہلو

اخلاقی پولیس کے ذریعہ خواتین کے خلاف کارروائی کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ سن 2017 میں ان قوانین کے مخالفت کرتے ہوئے درجنوں خواتین نے سرعام اپنے حجاب اتار دیے تھے۔ لیکن اخلاقی پولیس نے ان خواتین کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔

ایرانی خواتین کوپہلی بار براہ راست فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت

ایران کے بزرگ ترین پستہ فروش کا بیٹی سے متعلق انقلابی فیصلہ

نصف ایرانی عوام حجاب کے قانون کے خلاف، حکومتی رپورٹ

اصلاح پسند سابق صدر محمد خاتمی نے اخلاقی پولیس کے رویے کو ''تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے جب کہ سابق رکن پارلیمان محمود صادقی نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے امینی کے معاملے پر بیان دینے کا مطالبہ کیا۔

'حجاب کے خلاف احتجاج کرنے والی ایرانی خاتون کہاں گئی‘

صادقی نے ٹویٹر پر پوچھا، ''جارج فلائیڈ  کی موت پر امریکی پولیس کی بجا طور پر مذمت کرنے والے سپریم لیڈر مہسا امینی کے ساتھ ایرانی پولیس کے سلوک کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘

ج ا/ ع ت (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)