1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا میں مہاجرین سے متعلق نئی پالیسی، فائدہ کس کا؟

12 مئی 2018

آسٹریا کی حکومت کی جانب سے مہاجرین سے متعلق نئی پالیسی کے مسودے پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2xa34
Deutschland Flüchtlinge Passau
تصویر: Getty Images/J. Simon

آسٹریا میں دائیں بازو کی حکومت ملک میں مہاجرین سے متعلق اپنی پالیسیاں سخت بنا رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ اس طرح آسٹریا کی مقامی آبادی کے مفادات کا بہتر تحفظ ممکن ہو گا، تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ویانا حکومت کی مہاجرین سے متعلق اس نئی پالیسی کے مسودے پر تنقید کی ہے۔ اس نئی پالیسی کے مطابق ملک میں مہاجرین اور سیاسی پناہ سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

آسٹریا جرمن سرحد پر شناختی دستاویزات کی جانچ شروع کر سکتا ہے

جرمن آسٹرین سرحد پر بارڈر کنٹرول جاری رہے گا

شامی مذاکرات، اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ’آخری امید‘ کا انعقاد

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اس ترمیمی مسودے پر ایک قانونی تجزیہ پیش کیا ہے۔ عالمی ادارے کی جانب سے اس تجزیے میں ویانا حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی پناہ سے متعلق موجودہ پالیسیوں کو جاری رکھے۔ اس عالمی ادارے نے تازہ ترمیمی مسودے پر ’تشویش‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے مہاجرین کے پاس موجود ’نقد رقم اور الیکٹرانک مصنوعات کی ضبطی‘ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق کسی تارک وطن کے لیے آسٹریا کی شہریت حاصل کرنے کی مدت اس پالیسی کے نتیجے میں بہت بڑھ جائے گی۔

اس عالمی ادارے کے آسٹریا کے لیے سربراہ کرسٹوف پِنٹر کے مطابق، ’’یو این ایچ سی آر  کو آسٹریا میں سیاسی پناہ کے قوانین میں ترمیم کے حکومتی مسودے اور اس کے مہاجرین اور پناہ گزینوں پر اثرات پر تشویش ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’گو کہ آسٹریا میں سیاسی پناہ کے حوالے سے ایک مضبوط نظام موجود ہے، جو تارکین وطن کا تحفظ کرتا ہے اور انہیں تشدد اور مشکلات سے بچاتا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے قوانین میں تبدیلی اور ترامیم اس خیال کے تحت کی جا رہی ہیں کہ شاید سیاسی پناہ کا موجودہ نظام غلط استعمال ہو رہا ہے۔ یہ خدشات رائے عامہ کو بھی مشکل بنا رہے ہیں اور تارکین وطن کے معاشرتی انضمام کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔‘‘

اس نئے قانونی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ سیاسی پناہ کا کوئی درخواست گزار اگر ملک میں داخلے کے وقت 120 یورو سے زائد رقم کا حامل ہو گا، تو اس سے اسی وقت 840 یورو تک ضبط کیے جا سکیں گے۔ اس نئے قانون میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے مالی مدد صرف انہی تارکین وطن کو دی جائے گی، جنہیں واقعی مالی معاونت کی ضرورت ہو اور انہیں اپنے اخراجات خود اٹھانے کے لیے کہا جائے گا۔ پنٹر کے مطابق وہ افراد جو جنگوں میں پہلے ہی اپنا سب کچھ کھو چکے ہوں، ان سے یہ رویہ نہیں برتا جانا چاہیے۔

ع ت/ م م