1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: حکومتی اتحاد کی مضبوطی پر سوالات

عبدالستار، اسلام آباد
28 جون 2022

قومی اسمبلی اور کراچی میں حکومت کے اتحادیوں کی طرف سے اعتراضات اور شکایات نے ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا حکومتی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DN1L
تصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

پاکستان مسلم لیگ اس اتحاد کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔ گزشتہ روز  وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات بھی کی تھی۔

شکایات اور تنقید

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکومت کے ایک قریبی اتحادی رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریر کی اور انہوں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ  وفاقی وزیر ان کی ترقیاتی تجاویز کو حکومت کے ترقیاتی پروگراموں میں شامل نہیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایم کیوایم نے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے ہیں۔  اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پی پی پی اس کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی۔

حکومت کے ایک اور قریبی اتحادی جماعت جمیعت علماء اسلام ف نے بھی حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اور جمعیت علماء اسلام کے رکن قومی اسمبلی اسد محمود نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے حکومت کو شریعت کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ مذہبی جماعت کے ایک اور رہنما ڈاکٹر راشد محمود سومرو نے اپنی توپوں کا رخ پی پی پی کی طرف کیا اور بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔

اختلافات شدید تر ہورہے ہیں

لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی اتحادی جماعتوں میں اختلافات شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مزے کی بات ہے کہ اس ساری صورت حال میں پی پی پی مطمئن نظر آرہی ہے اور سیاسی نقصان ن لیگ کو ہورہا ہے۔ نون لیگ کو سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں، جس سے وہ عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو رہی ہے اور اتحادی بھی اس پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ وعدے پوری نہیں کررہی۔‘‘

حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ اگر صورت حال یہی رہی تو ملک انتخابات کی طرف ہی جائے گا۔ ''مسلم لیگ کو دونوں ہی صورتوں میں نقصان ہے۔ اگر اتحاد ٹوٹتا ہے تو بھی ن لیگ کو نقصان ہوگا اور اگر نہیں ٹوٹتا تو بھی اسے سیاسی نقصان ہوگا۔‘‘

پاکستان کا حاکم طبقہ اور ٹیکس چوری کرنے کے طریقے

کیا پاکستان کو کسی انقلاب کی ضرورت ہے؟

راہیں جدا ہو سکتی ہیں

دوسری طرف ایم کیوایم اس بات کا تاثر دے رہی ہے کہ اگر پی پی پی نے وعدے پورے نہیں کیے تو وہ حکومتی اتحاد چھوڑ سکتی ہے۔

ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کئی اجلاسوں اور ملاقاتوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی اپنے وعدے پورے کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ وہ ہمیں وزارتوں اور گورنر شپ تو آفر کرتی ہے لیکن جب ہم مسائل کے حوالے سے بلدیاتی اختیارات مانگتے ہیں تو اس میں وہ ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔‘‘

اس رہنما کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون کا یہ فرض ہے کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد کرائے۔ '' ہماری پارٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا اور انہوں نے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطہ بھی کیا ہے۔ تاہم اگر پیپلزپارٹی نے اسی طرح کی ٹال مٹول کی تو پھر ہمارا اتحاد میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

اس رہنما نے اس بات کی وضاحت کی کہ ان کا مسلم لیگ نون سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ''وفاقی حکومت کراچی کی ترقی کے لیے 40 ارب روپے سے زیادہ دینے کے لیے تیار ہے لیکن اصل معاملہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا ہے جس پر پیپلز پارٹی رضامند نظر نہیں آتی۔‘‘

حکومت ختم ہونے نہیں جارہی

تاہم حکومت کے اتحادی اس تاثر کو زائل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ حکومت ختم ہونے جارہی ہے یا حکومت کے اتحادی حکومت سے نکل رہے ہیں۔  بلوچستان عوامی پارٹی اور رکن قومی اسمبلی خالد حسین مگسی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے یہ تاثر غلط ہے کہ ہم حکومتی اتحاد کو چھوڑ رہے ہیں یا حکومت کہیں جا رہی ہے۔ اتحادی حکومتوں میں مسائل ہوتے ہیں اور یہاں بھی ہیں۔ تاہم ہم نے اپنا نقطہ نظر حکومت تک پہنچا دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مسائل باہمی گفت و شنید سے حل ہو جائیں گے۔‘‘

 کچھ ایسا ہی تاثر حکومت کی ایک دوسری بڑی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام بھی دے رہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی مجلس شوریٰ کے رکن اور مولانا فضل الرحمن کے قریبی محمد جلال الدین ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے رہنما نے سود کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر اپنی رائے کا  کا اظہار کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حکومت چھوڑ رہے ہیں یا حکومتی اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ رہیں گے لیکن ہم اس مسئلہ کو باہمی مشورے سے حل بھی کریں گے ہمارے۔ خیال میں یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے اور ماہرین کی رائے لے کر سود کے نظام کو مرحلہ وار انداز میں ختم کیا جانا چاہیے۔‘‘

گرے لسٹ سے نکلنا معیشت کے لیے ضروری ہے، حنا ربانی کھر