1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگلاتی آگ سے متعلق کیا پاکستانی قوانین موثر ہیں؟ ‍

23 مئی 2022

خیبر پختونخواہ میں آتشزدگی کے دو واقعات اور اب بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات میں بے قابو ہوتی آگ نے ملک میں وائلڈ فائرز سے متعلق قوانین کے حوالے سے ایک بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Biwu
تصویر: Ghani Kaker/DW

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اپریل سے جولائی کے دوران  گھنے جنگلات میں آگ  کا بھڑک اٹھنا اب معمول بن چکا ہے۔ جنگلات میں آگ  عموما ماحولیاتی تبدیلیوں کے  باعث یا آسمانی  بجلی گرنے سے لگتی ہے۔ مگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے جنگل میں آگ لگنے کی شرح  دیگر عوامل سے زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں وائلڈ فائرز  کی روک تھام سے متعلق قانون سازی  کرکے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو  نے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وائلڈ فائرز  سے متعلق پاکستانی قوانین کیا ہیں۔

ٹک ٹاکر نوشین سعید  کے واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟

گزشتہ ہفتے  ایک ویڈیو پاکستانی سوشل میڈیا پر چھائی رہی جس میں ایک ٹک ٹاکر "ڈولی"عقب میں بھڑکتی  جنگل کی آگ  کے ساتھ ایک گانے پر پرفارم کرتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئر پرسن رینا سعید خان نے کلائی میٹ چینج پر  سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا  ہے کہ  افواہوں کے برعکس  یہ آگ مارگلہ  کی پہاڑیوں میں نہیں لگائی گئی بلکہ ٹک ٹاکر نوشین سعید  نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہزارہ موٹر وے خیبر پختونخواہ  کے قریب واقع جنگل میں ویڈیو کی فلمبندی کے لیے ازخود آگ لگائی تھی۔

نوشین سعید عرف ڈولی یہ رپورٹ لکھے جانے تک ضمانت پر رہا ہو چکی ہیں  مگر  ان کے تین ساتھیوں کو  گرفتار کیا گیا ہے اور باقی کی تلاش جاری ہے۔

شیرانی بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات میں آگ کیسے پھیلی؟ 

بلوچستان میں  شیرانی اور ملحقہ علاقوں کے گھنے جنگلات میں  گزشتہ کچھ دنوں سے شدید آگ  لگی ہوئی ہے جو  بلند پہاڑوں پر تیز  ہوا کے باعث قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سرحد پر واقع کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں تقریبا 26 پزار ایکڑ کے رقبے پر گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جنھیں دنیا میں چلغوزے کے سب سے بڑے جنگلات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ 

بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے شیرانی کے رہائشیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ  یہ آگ خیبر پختونخواہ کے علاقے تورغر میں آسمانی بجلی گرنے سے بھڑکی اور پھر تیز ہوا کے باعث پھیلتی ہوئی  ڈیرہ اسماعیل  خان سے بلوچستان میں شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات تک پہنچی۔ 

مقامی افراد کے مطابق دو مقامات پر آگ شدید ہے۔ ان میں پہلا مقام تورغر ہے جہاں سے آگ پھیلی اور دوسرا مقام شیرانی میں غنڈ سر  کا گھنا جنگل ہے جہاں پہاڑوں کی بلندی 5 ہزار فٹ تک ہے۔ اتنی بلندی پر  آگ بجھانا مقامی افراد کے لیے ممکن نہیں تھا۔ فوری طور پر حکومتی مدد نہ پہنچنے کے باعث آگ تقریبا  6 سے 7 کلومیٹر کے علاقے تک پھیل گئی ہے۔

بلوچستان: چلغوزے کے جنگل میں لگی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا

پاکستان میں وائلڈ فائرز کی وجوہات کیا ہیں؟

وائلڈ فائرز پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم 'تھنک ہیزارڈ‘ کے مطابق پاکستان اس خطے میں واقع ہے  جہاں گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ  تک بلند درجہ حرارت جنگل  میں آگ بھڑکانے میں 50 فیصد معاونت کرتا ہے لیکن  اس حوالے سے مقامی سطح پر  تحقیق کا فقدان ہے۔

پشاور یونیورسٹی  سے منسلک محقق  نفیس احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2003 سے 2018 کے دوران اسلام آباد میں واقع مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی سے 25،812،36 ایکڑ رقبے پر جنگلات جل کر خاکستر ہوئے۔ یہاں آگ  عموما آسمانی بجلی گرنے یا بلند درجہ حرارت کی وجہ سے لگتی ہے مگر  کبھی کبھار یہ انسانی کارستانی بھی ہوتی ہے۔ 

نفیس احمد کے مطابق  ان کی ایک تحقیق  کے نتائج بتاتے ہیں کہ  1993 سے 2000  تک صرف سوات کے جنگلات میں 20 مرتبہ آگ لگی  اور ہر بار  آگ مقامی افراد نے ذاتی دشمنی پر  لگائی۔ ان تمام واقعات میں ملزمان کی نشاندہی تو ہوئی مگر صرف چار واقعات میں مجرمان کو سزا بھگتنا پڑی باقی افراد  کسی نہ کسی طرح ضمانت کروانے میں کامیاب ہوگئے۔  

وائلڈ فائرز پر پاکستانی قوانین کیا ہیں؟

ایکو کلب پاکستان کے ممبر اشعر خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے بچاؤ اور وائلڈ فائرز کے حوالے سے درست پالیسیز اور قانون سازی کا فقدان ہے۔ آسٹریلیا میں از خود لگائی جانے والی جنگل کی آگ پر 21 برس تک قید کی سزا دی جاتی ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق یہاں  یہ سزا محض تین برس ہے۔  

اشعر خان کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کے باعث اس حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کہ  جنگل کی آگ ماحول اور ایکو سسٹم  کو کس طرح تباہ  کر رہی ہے ۔ لوگ معمولی جھگڑوں پر ایک دوسرے کے علاقے میں آگ لگا دیتے ہیں۔ اشعر سمجھتے ہیں کہ اگر  قانون سازی کرکے مجرمان کی سزا بڑھا دی جائے  اور عمر قید کے ساتھ بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے تو  لامحالہ اس طرح کے واقعات میں کمی آئے گی۔

اشعر خان کے مطابق جنگلات کی جو بائی پراڈکٹس ہیں جسے  لاکھوں ٹن تنا، پتے، جھاڑیاں وغیرہ یہ جنگل کی آگ  کو پھیلانے میں معاونت کرتے ہیں۔ انھیں ری سائیکل کر کے کارآمد اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں گھنے جنگلات والے علاقوں میں اگر اس کے لیے ری سائیکل پلانٹ بنا دیئے جائیں تو مقامی افراد کے لیے مزید روزگار کے علاوہ  صوبائی سطح پر تجارت بڑھے گی اور جنگلات میں  آتشزدگی  کو  روکنے میں بھی مدد ملے گی۔

اشعر خان نے اس امر پر زور دیا  کہ وائلڈ لائف پاکستان کی فنڈنگ میں اضافے  کے ساتھ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں محکمہ جنگلات کو  مناسب سہولیات فراہم کی  جائیں  اور مقامی افراد میں اپنے ملکیتی جنگلات کی انشورنس  سے متعلق  آگاہی پیدا کی جائے ۔

بہاولپور کی سرسبز’گرین اسٹریٹ‘